بدری رائنا
یہ بات تازہ کرلیتے ہیں کہ آسام معاہدہ 1985ء نے صراحت کی کہ وہ تمام افراد چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھیں، جو 24 مارچ 1971ء سے قبل آسام میں داخل ہوگئے، انھیں ہندوستانی کے شہری تسلیم کیا جائے گا۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا عمل حکومت ِ وقت نے شروع کیا تاکہ عملاً اسے پلٹ دیا جائے جو کچھ وہ اُس معاہدہ کا مضر نتیجہ باور کرتے ہیں۔ ایسی امید رہی اور مقصد رہا کہ این آر سی عمل (جس نے آسام معاہدہ کی عہد شکنی کی) آبادی کے اعتبار سے ایسا ثمر پیش کرے گا جو ہندوتوا سیاست کیلئے سازگار ہو اور آسام میں بنیادی طور پر مسلم تارکین وطن کو اجنبی قرار دیا جاسکے۔ تاہم، جو کچھ نتائج سامنے آئے، اس کے مطابق لگ بھگ 19 لاکھ افراد کی اکثریت جو این آر سی عمل کے بعد اجنبی قرار پائی، وہ ہندو ہیں۔
اس صورتحال پر ہندوتوا قوتیں نقائص کا واویلا کرنے لگیں، اور این آر سی عمل کے منصفانہ پن پر سوال اٹھانے لگے نیز اس عمل کو منعقد کرنے والے آفیسر پر شبہات کئے گئے۔ شوروغل برپا ہوا کہ این آر سی عمل کا ضرور اعادہ ہونا چاہئے۔ شہریت (ترمیمی) بل (سی اے بی یا کیاب) جو ایک بار بے اثر ہوچکا، اِس مرتبہ دوسری کوشش میں اسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ساتھ عملاً پارلیمنٹ کی منظوری مل گئی۔ اس کے دو مقاصد ہیں، ایک مختصر مدتی اور دوسرا طویل مدتی۔
مختصر مدتی مقصد ان تمام ہندوؤں کو جو این آر سی عمل میں شہریت سے محروم قرار پائے، انھیں بنیادی طور پر بنگلہ دیش سے آئے ’’ستم زدہ‘‘ مذہبی پناہ گزین قرار دیا جائے، اور اس طرح ہندوؤں کے معاملے میں این آر سی نتائج کے شاخسانہ کو الٹ دیا جائے، چونکہ سی اے بی گنجائش فراہم کرتا ہے کہ وہ تمام غیرمسلم جن پر افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ستم ڈھائے گئے، ان کو ہندوستان میں چھ سالہ قیام کے بعد ہندوستانی شہریت عطا کردی جائے گی۔ باریکی سے دیکھیں تو اس مساعی میں وہ تمام ہندو شامل ہوجائیں گے جنھوں نے این آر سی میں شہریت حاصل ہونے کا دعویٰ پیش کیا تھا، اور اب وہ ہندوستانی ہوجائیں گے کیونکہ وہ خود کو ہندوستان کے باہر سے آئے پناہ گزین ظاہر کرچکے ہیں۔ اب کوئی بھی اندازہ لگا لیں کہ اس تبدیلی کا قانونی جواز کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کو اس مفت کی نعمت سے یہ اساس پر شامل نہیں رکھا گیا ہے کہ وہ ایسے ممالک میں مذہب کی بنیادوں پر ستم کا شکار ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے جسے خود وہ مسلم ممالک کہتے ہیں۔ یہ خیال بھی ہے کہ چونکہ کئی مسلمانوں نے 1947ء میں ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اس لئے بقیہ ’’ہندو‘‘ بھارت پر کسی کو بھی واپس لینا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا، مثال کے طور پر پاکستان میں بعض فرقوں کو تنگ کیا جاتا رہے، یا افغانستان میں ہزارہ برادری اور میانمار میں روہنگیا پر ستم ڈھائے جائیں، وہ بھی ہندوستان میں رفیوجی کا موقف حاصل ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں۔
ایک خیال یہ بھی آیا کہ اگر کوئی یورپی ملک کوئی قانون منظور کرتے ہوئے ستم زدہ ہندوستانی دلتوں اور آدیواسیوں کو وہاں شہریت کیلئے درخواست دینے کے قابل بنائے تو کیسا رہے گا؟ اور کون تکرار کرے گا کہ اس طرح کا ستم کوئی حقیقت نہیں ہے؟ یہ معروف بات ہے کہ ہندوتوا کا دایاں بازو یہی موقف رکھتا ہے کہ اکھنڈ بھارت میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ بھارت کے ہندوؤں پر خصوصی ذمہ داری ہے کہ مذہبی طور پر ستائے گئے ہندو لوگوں (اور دیگر غیرمسلم اقلیتی گروپوں) کو ہندوستانی شہریوں کے طور پر قبول کیا جائے۔ سری لنکا جیسے بعض ملکوں میں ہندو مذہبی طور پر ستم کا شکار ہوئے ہیں اور یہ بھی ناقابل قبول دلیل معلوم ہوتی ہے کیونکہ (اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں) ان ملکوں میں ظلم کرنے والے مسلمان نہیں رہے ہیں۔ اس طرح شہرت ترمیمی بل (کیاب) ہندوتوا دائیں بازو کی طرف سے وسیع تاریخ پر محیط بیان جاری کرتا ہے کہ بھارت اصلاً ہندو ملک ہے اور ہندو راشٹرا بننے کا مستحق ہے۔
نظریاتی ترکیب کو تکثیریت پر مبنی ہندوستانی جمہوریہ کے دستور کی صریح خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی دستور کے آرٹیکلس 14 اور 15 اور باتوں کے بشمول واضح طور پر نسل کی اساس پر امتیاز و تعصب کو ممنوع قرار دیتے ہیں… ایسی دفعہ جو اُن پر بھی اتنی ہی قابل اطلاق ہے جو ہندوستانی شہری بننے کے خواہشمند ہیں یا پہلے سے ہیں، چاہے وہ کہیں سے بھی آئیں۔ کچھ غلط فہمی میں نہ رہئے، سی اے بی نے ہندوتوا دائیں بازو کے فرقہ پرست ایجنڈے کی اصلیت کا اظہار کیا ہے، اور اس جمہوریہ کو مذہبی مملکت میں بدلنے کیلئے کوشاں ہے۔ کیا سی اے بی کو قانون بننے دیا جائے؟ وہ دن شاید دور نہیں جب باقاعدہ ترامیم لاتے ہوئے اسے قانون بنادیا جائے گا اور ہندوتوا پراجکٹ کو بھرپور انداز میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔
کئی اپوزیشن سیاسی قوتیں پہلے ہی سمجھ چکی ہیں کہ اس بل کے قطعی مقصد کی بھرپور حدود کیا ہیں۔ تاہم انھیں اس بل کی مخالفت کرنے کیلئے لوک سبھا میں تو درکار عددی طاقت بالکل نہیں ہے، اور راجیہ سبھا میں بھی اسے ناکام بنانا ہرگز آسان نہیں ہے۔ چنانچہ سی اے بی کو پارلیمانی حاصل ہوگئی۔ اب ہر سکیولر اور قوم کی تکثیری ترکیب سے وابستہ ہر جمہوری شہری کی امید ہونا چاہئے کہ آگے کا لائحہ عمل طے کرنے میں سمجھ بوجھ سے کام لیں اور اپنا تال میل قائم رکھیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ منظورہ بل اقوام متحدہ کے مصرحہ تمام انسانیت نواز اُصولوں کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ بابائے قوم گاندھی جی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان اُن کے دو آنکھیں ہیں، اور کوئی بھی آزادی جو اُن کو الگ کرنے کی کوشش کرے، انھیں قابل قبول نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ تمام تر قول اور فعل کے باوجود وہ ہندوستان کی تقسیم کو روک نہیں سکے۔ لیکن وہ جو ہندوتوا دائیں بازو میں شامل ہیں، جنھوں نے اُس تقسیم کی مخالفت کرنے کا ڈھونگ کیا (واضح رہے کہ 1937ء میں ہی ساورکر نے شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ ہندوستان دو اقوام ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے؛ اس کے بعد 1940ء میں پاکستان قرارداد پیش ہوئی)، اب اُس تقسیم کے افسوسناک شاخسانہ کو مضبوط کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں، اور اس ضمن میں ہندوستان میں اور مسلم ممالک میں دونوں جگہ ممکنہ طور پر ستم زدہ مسلمانوں کو بیگانہ بنارہے ہیں۔ اس لئے یہ واقعی ایسے تمام ہندوستانیوں کیلئے بیدار ہوجانے کا وقت ہے، جن کا دستوری جمہوریہ اور دستوری میں مصرحہ قواعد اور اقدار پر ایقان ہے۔ آئیے! اس نہایت احمقانہ عمل کی ہر ممکنہ مزاحمت کریں۔
