شہریت ترمیمی قانون کیخلاف احتجاجی مہم میں دیگر ابنائے وطن کو شامل کرنے کا مشورہ

,

   

Ferty9 Clinic

مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، دستاویزات کو درست کرلینے کی تلقین، جناب زاہد علی خاں، وامن مشرام و دیگر کا خطاب

حیدرآباد۔15ڈسمبر(سیاست نیوز) شہریت ترمیمی ایکٹ 2019‘ ہو یا پھر قومی رجسٹرار برائے شہریت ( این آرسی ) مسلمانوں کو ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیںہے ‘ ہوش مندی سے کام سے لیتے ہوئے مسلمانوں کو چاہئے وہ نہ صرف اپنے دستاویزات کو درست کرلیں بلکہ مسلمان دشمن مذکورہ قوانین کے خلاف ایک حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہوئے ‘ دیگر ابنائے وطن کو بھی اپنی اس مہم میںشامل کرلیں‘ بالخصوص ایس سی ‘ ایس ٹی او راوبی سی سماج کے لوگوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے ‘ مرکزی او رریاستی حکومتوں کو دبائو کی حکمت عملی تیار کریں۔ مدیر اعلی روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان نے ادارے سیاست کے گولڈن جوبلی ہال میںایس سی ‘ ایس ٹی‘ بی سی ‘ مسلم فرنٹ کے زیر اہتمام سی اے بی ‘ این آرسی اور ای وی ایم کے عنوان پر منعقدہ جلسہ عام سے صدارتی خطاب کے دوران ان خیالا ت کااظہار کیا۔جس کے مہمانِ خصوصی سماجی جہدکار اور دلت سماج کے لیڈر وامن مشرام تھے۔ جبکہ جسٹس چندرا کمار‘ پی او ڈبلیو سندھیا‘ ٹی پی ایف دیویندراکے علاوہ منیر الدین مجاہد‘ مولانانصیر الدین‘ مولانا حسین شہید ‘ پروفیسر انور خان نے اپنی مخاطبت میں شہریت ترمیمی ایکٹ2019اور این آر سی کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ چیرمن ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ بی سی ‘ مسلم فرنٹ ثناء اللہ خان نے جلسہ کی کاروائی چلائی۔اپنے صدارتی خطاب کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے جناب زاہدعلی خان نے کہاکہ شہریت ترمیمی ایکٹ2019اور این آرسی کے خلاف ایک قرارداد تیار کی جائے اور اس کو تلنگانہ او رآندھرا چیف منسٹران کے علاوہ ملک کے تمام غیر بی جے پی چیف منسٹروںکو روانہ کرتے ہوئے ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اپنی ریاستوں میں سی اے بی اور این آر سی کے نفاذ سے صاف انکار کریں۔ جناب زاہد علی خان نے اس پر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ حالانکہ مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے ہر قانون پر عمل آواری تمام ریاستوں کی دستوری ذمہ داری ہوتی ہے مگر قرارداد کی روانگی اور حکومتوں سے اپیل ہمارے جذبات کی ترجمانی کرے گی ۔جناب زاہد علی خان نے پسماندگی کا شکار طبقات او رمسلمانوں کے درمیان تعلقات میںاضافہ کو وقت کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے کہاکہ اٹھ سو سالوں تک مسلمانوں نے اس ملک پر حکمرانی کی ‘ مگر پسماندہ طبقات کے ساتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلمانوں نے اعلی عہدوں اور منصبوں پر اونچی ذات والوں کومتعین کیاجبکہ پسماندہ طبقات جس کو ایس سی ‘ ایس ٹی او راو بی سی کہاجاتا ہے ان پر توجہہ نہیںکی ‘ حالانکہ مسلمانوں کو چاہئے تھاکہ وہ پسماندہ طبقات پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کرتے اور ذات پات کی اس لڑائی میںپسماندہ طبقات کے ساتھ کھڑے ہوتے مگر ایسا نہیںہوا ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ آٹھ سوسال بعد مسلم حکمرانوں کی کوتاہی کا فائدہ اونچی ذات والے طبقات نے اٹھایا اور ملک کے ہرفرقہ ورانہ فساد میںمالیہ کی فراہمی کی اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کو مسلمانوں کے مدمقابل کھڑا کیا۔انہوں نے کہاکہ ہمارے سامنے گجرات کے فسادات اس کی ایک بڑی مثال ہیںجس میں فنڈ کی فراہمی کرنے والے اونچی ذات کے لوگ تھے اور مسلمانوں کا خون بہانے والے گجرات کے قبائیلی لوگ تھے جنھیںایس ٹی کہاجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب بھی وقت ہے ہمیںایک اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں او رپسماندگی کاشکار طبقات کے درمیان میںہونا چاہئے۔ جناب زاہد علی خان نے کہاکہ ایس سی ‘ ایس ٹی او راوبی سی کو ساتھ لے کر مخالف سی اے بی اور این آر سی مہم چلائی جانی چاہئے ۔ومن مشرام نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ این آر سی اورسی اے بی کے ذریعہ آسام کے سترہ لاکھ غیرمسلمان جس میںاکثریت ایس سی ‘ ایس ٹی او ر اوبی سی کے لوگوں کی ہے انہیں ہندو بنانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔وامن مشرام نے مزیدکہاکہ آسام اور مرکز کی بی جے پی حکومت مسلمانوں کے کاندھوں کااستعمال کرتے ہوئے نشانہ اوبی سی سماج کے لوگوں کو بنارہی ہے تاکہ وہ ہندو قراردئے جائیں۔ انہوں نے ایس سی ‘ ایس ٹی او راو بی سی کے لوگوں کو مسلمانوں کی جانب سے ہندو پکارنے پر بھی اعتراض جتایا اور کہاکہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کے لوگوں کو ہندو کہنے سے ہی برہمن سماج کے لوگوں کی سازشیں کامیاب ہورہی ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ملک میں صدیوں سے آر ایس ایس کے لوگ پسماندہ سماج کے لوگوں کو اچھوت بناتی آرہی ہے۔ انہوں نے ڈاکیومنٹری شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں74.5فیصد ایسے لوگ ہیںجو حقیقی طور پر ہندو مذہب کے زمرے میں نہیںآتے ‘ جنھیںآر ایس ایس نے اچھوت بنایا ہے او روہ ایس سی ‘ ایس ٹی او راوبی سی کے لوگ ہیں۔ منظم انداز میں آر ایس ایس نے ایس سی اور ایس ٹی لوگوں کی زمرہ بندی کرتے ہوئے انہیںنہ صرف اچھوت بنایا بلکہ قبائیلی علاقوں میںانہیں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیاہے۔انہوںنے مبینہ طور پر اچھوت کہے جانے والے طبقات کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے کہاکہ آر ایس ایس نے 17سوطبقات ایس سی کے جبکہ 800قبائیلی اور 6000سے زائد اوبی سی طبقات میںپسماندگی کا شکار لوگوں کو تقسیم کیاتاکہ وہ ان پر نہ صرف حکمرانی کرسکیں بلکہ انہیں آپس میںتقسیم کرکے اور اپنی اجارہ داری کوبرقرار رکھ سکیں۔انہوں نے کہاکہ مسلم دور حکمرانی میںارادۃ ًیا غیر ارادۃًکہیںمسلمانوں نے آر ایس ایس کے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میںمدد کی ۔ وامن مشرام نے کہاکہ اگر مسلمان ایس سی ‘ ایس ٹی او راوبی سی سماج کے لوگوں کو ہندو کہنا بند کردیں گے تو یقینا آرایس ایس کی تمام سازشیں ناکام ہوجائیںگی۔ انہو ںنے کانگریس پر 2004اور2009میں ای وی ایم کے ساتھ دھاندلیاں کرنے کا الزام عائد کیااو رکہاکہ ان الزامات کے وامن مشرام کے پاس دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ اس کے بعد جب سبرامنیم سوامی ای وی ایم کے ساتھ دھاندلیوں کا معاملہ لے کر سپریم کورٹ پہنچے تو آر ایس ایس کے ذریعہ کانگریس نے معاملے داری کی اور 2014میں ای وی ایم کے ساتھ دھاندلیوں کا موقع بی جے پی کو دیا اور اسی چھیڑ چھاڑ کے سلسلے کو بی جے پی نے 2019میںبھی جاری رکھا تھا۔انہوںنے پارلیمانی سیٹوں پر جیت ‘ رائے دہی کے تناسب اور بی جے پی کو حاصل ہونے والی سیٹیوں کا موزانہ کرتے ہوئے کہاکہ کہیں پر بھی 2014اور2019میںبی جے پی کو جوکامیابی پارلیمانی الیکشن میںملی ہے وہ اس سے میل نہیںکھاتی ہے۔ جسٹس چندرا کمار نے سی اے بی میںائینی خامیو ں کا ذکر کیا اورکہاکہ مذکورہ قانون آئین کے ٓارٹیکل14کی خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ میںاگر بہتر انداز میںنمائندگی کی گئی تو یہ اس قانون کو ناکام بنانا کوئی مشکل نہیںہے ۔ انہوں نے مذہب کے نام پر شہریت کی فراہمی کو بھی ہندوستان کے جمہوری او رائینی اقدار کی خلاف ورزی قراردیا۔ پی او ڈبلیوسندھیانے کہاکہ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈے کوعملی جامعہ پہنانے کی تیاری کررہی ہے۔