شہریت ترمیمی قانون کیخلاف جنترمنتر پر احتجاج

,

   

مختلف ریاستوں کے ہزاروں افراد اور طلباء شامل ، شاہین باغ خواتین کا مارچ
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف آخری سانس تک جدوجہد کا عزم

نئی دہلی ۔ 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے جنترمنتر پر آج بڑا احتجاج کیا گیا جس میں شمالی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے حصہ لیا۔ احتجاج میں شاہین باغ کی خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے شاغ سے جنترمنتر تک مارچ کیا۔ طلبہ کے کئی گروپس بھی اس احتجاج میں شامل تھے۔ رضاکارانہ تنظیم یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے کارکن ندیم خاں نے بتایا کہ احتجاجی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جامع ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ کی بڑی تعداد بھی احتجاج میں شامل تھی۔ شاہین باغ سے تعلق رکھنے والے احتجاجیوں نے اس مظاہرہ میں حصہ لیا۔ شاہین باغ کی دادی جو احتجاج میں شامل عمر رسیدہ خاتون ہیں، نے احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے حکومت سے سی اے اے سے دستبرداری کا مطالبہ کیا جو احتجاجیوں کی توجہ کا مرکز تھی۔ دادی احتجاج کے اہم مقام تک پہنچنا چاہتی تھیں لیکن ٹریفک کے باعث وہ نہیں پہنچ پائیں۔ احتجاج میں اترپردیش، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد شریک تھی۔ جئے پور کے تاجر نعیم رہبانی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون امتیاز پر مبنی ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آخری سانس تک دستور کا تحفظ کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سفر طویل ہوسکتا ہے۔ نعیم 400 افراد کے ساتھ احتجاج میں شریک تھے۔ احتجاجیوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر شرجیل امام کی گرفتاری کی بھی مذمت کی جس کو دہلی پولیس نے کل بہار کے جہان آباد میں گرفتار کیا جس پر مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کا الزام ہے۔ 37 سالہ محمد جاوید نے بتایا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کیلئے انہوں نے فوج کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ فوج میں رہ کر انہوں نے سیائچن گلیشئر پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام ہندوستانی ہیں۔ ہمارے آباواجداد نے ملک کی آزادی کیلئے جدوجہد کی تھی۔ ہم کوئی دستاویز نہیں دکھائیں گے۔ دہلی کی سماجی کارکن 50 سالہ زلیخہ جبین نے کہا کہ ان کی لڑائی نئی نسل کیلئے ہے اور وہ آخری سانس تک جدوجہد کریں گے۔