شہریت ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیالنج

,

   

lکیرالا، نئے قانون کیخلاف عدالت سے رجوع ہونے والی پہلی ریاست l سی اے اے کیخلاف تمام 59 درخواستوں پر 22 جنوری کو سماعت

نئی دہلی14جنوری (سیاست ڈاٹ کام ) کیرالہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 131 کے تحت شہریت (ترمیمی) قانون (سي اے اے ) کی آئینی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے۔ کسی ریاستی حکومت کی جانب سے مرکز کے اس قانون کے خلاف دائر کردہ یہ پہلی پٹیشن ہے ۔درخواست میں پاسپورٹ ( ہندوستان میں داخلہ) ترمیمی قوانین 2015 اور غیر ملکی (ترمیمی) آرڈر 2015 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے ، جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ان غیر مسلم تارکین وطن کے قیام کو منظوری دے دی ہے جو 31 دسمبر، 2014 سے پہلے اس شرط پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے کہ وہ اپنے ملک میں مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے وہاں سے بھاگ آئے تھے ۔اس درخواست میں قانون اور انصاف کی وزارت کے سکریٹری اور حکومت ہند کو مدعا علیہ بنایا گیا ہے ۔دراصل آئین کی آرٹیکل 131 حکومت ہند اور کسی بھی ریاست کے درمیان کسی بھی تنازع میں سپریم کورٹ کو بنیادی دائرہ اختیار دیتا ہے ۔سی اے اے کو چیلنج دینے والی کم از کم 60 عرضیاں عدالت میں زیر التواہیں، لیکن کسی ریاستی حکومت کی جانب سے یہ پہلی پٹیشن ہے ۔ کیرالا حکومت نے اپنی درخواست میں اس قانون کو دستور کے تحت دیئے گئے مساوات، آزادی اور سیکولرازم کے اُصولوں کے خلاف قرار دینے کی بھی خواہش کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کی زیرقیادت کیرالا اسمبلی میں اس قانون کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔ اس طرح کیرالا ہی پہلی ریاست ہے جس نے اسمبلی میں بھی اس کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ کیرالا حکومت نے اپنی درخواست میں سی اے اے کو دستور کی دفعہ (14) ، دستور کی دفعہ (21) ، اور دفعہ (25) کی خلاف ورزی قرار دینے کی بھی درخواست کی ہے۔ دستور کی دفعہ 14 کے تحت مساوات کا حق دیا گیا ہے جبکہ 21 کے ذریعہ زندگی اور شخصی آزادی کا شہریوں کو حق دیا گیا ہے۔ اس طرح دفعہ 25 کے ذریعہ کسی مذہب کو اختیار کرنے اور اس کی تشہیر و تبلیغ کا حق دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے‘ سیکولرازم کے بنیادی اُصول کے خلاف بھی ہے۔

سپریم کورٹ نے 18 ڈسمبر کو مرکزی حکومت کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کی قانونی حیثیت کو چیلنج کی گئی درخواستوں سے متعلق جنوری کے دوسرے ہفتہ میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کو 10 جنوری سے نافذالعمل کردیا گیا ہے جس کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ایسے غیر مسلم تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت دی جارہی ہے جو ان ممالک میں مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے ہیں اور ان پر مظالم ہوئے ہیں اور جو 31 ڈسمبر 2014 ء تک ہندوستان میں آچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف (59) درخواستوں پر سماعت کے لئے 22 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ جن میں انڈین مسلم لیگ، کانگریس قائد جے رام رمیش، راشٹریہ جنتادل قائد منوج جھا، ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ موئترا اور کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کی درخواستیں بھی شامل ہیں جنھوں نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر نے بھی اس کے خلاف درخواست دی ہے۔ ان میں جمعیۃ العلماء ہند، آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، پیس پارٹی، سی پی آئی، این جی اوز ر ہائی منچ اور سٹیزنس اگینسٹ ہیٹ شامل ہیں۔ قانون کے کئی طلباء بھی اس کو چیالنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔ کیرالا حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گی کیوں کہ یہ ملک میں سیکولرازم اور جمہوریت کو تباہ کرنے والا قانون ہے۔ کیرالا کے وزیر صنعتیں ایف پی جیاراجن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے جبکہ اس قانون کے خلاف تمام اختیارات پر بھی غور کیا جائے گا۔ اُنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے ذریعہ آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کرنے میں مدد ملے گی۔ اُنھوں نے الزام عائد کیاکہ اس کے ذریعہ ملک کو فاشسٹ قوم میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار طاقت کے استعمال کے ذریعہ اس کو لاگو نہیں کرسکتے۔ کیرالا کے وزیر سیاحت کے سندرن نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ کیرالا پہلی ریاست ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے۔