قائدین کو بیان بازی سے گریز کی ہدایت، کے سی آر کو ووٹ بینک کی فکر
حیدرآباد۔/11 جنوری ، ( سیاست نیوز) مرکزی حکومت کے متنازعہ قوانین اور فیصلوں کے خلاف ایک طرف ریاست بھر میں عوامی احتجاج دن بہ دن شدت اختیار کررہا ہے لیکن سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے کے سی آر شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر پر لب کشائی سے گریز کررہے ہیں۔ پارٹی کے اقلیتی قائدین اگرچہ چیف منسٹر کے موقف سے ناراض ہیں لیکن وہ کھل کر اظہار کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ چیف منسٹر نے این آر سی اور این پی آر جیسے حساس مسائل پر قائدین کو کسی بھی تبصرہ سے گریز کرنے کی ہدایت دی ہے کیونکہ بلدی انتخابات کے نتائج پر صورتحال اثرانداز ہوسکتی ہے۔ چیف منسٹر نے مسلم رہنماؤں کے وفد کو یقین دلایا تھا کہ وہ اندرون دو یوم اپنے موقف کا اعلان کریں گے اور ہم خیال چیف منسٹرس سے ربط قائم کرتے ہوئے 30 جنوری کو حیدرآباد میں جلسہ عام منعقد کرنے کا تیقن دیا تھا۔ چیف منسٹر کے تیقن کو 15 دن سے زائد کا وقت گذر گیا لیکن آج تک نہ ہی چیف منسٹر اور نہ پارٹی کے ورکنگ پریسیڈنٹ اس مسئلہ پر کھل کر اظہار کیلئے تیار ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق کے سی آر نے توسیعی اجلاس اور ارکان اسمبلی کے ساتھ اجلاس میں شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر پر کوئی تبصرہ نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی وسیع تر مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔ چیف منسٹر کا اشارہ دراصل بلدی انتخابات کی طرف ہے اور وہ انتخابی مرحلہ کے دوران ان مسائل پرکسی بھی تبصرہ کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانا نہیں چاہتے۔ چیف منسٹر کی نظر دراصل بلدی انتخابات اور ہندو ووٹ بینک پر ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ٹی آر ایس موقف اختیار کرتی ہے تو بی جے پی اسے سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔ جس طرح لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 4 نشستوں کا فائدہ ہوا اسی طرح بلدی انتخابات میں بھی بعض اضلاع میں بی جے پی بہتر مظاہرہ کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے خوف نے کے سی آر کو شہریت قانون اور این آر سی پر فیصلہ سے باز رکھا ہے۔ کے سی آر نے مسلمانوں میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے کیلئے رسمی طور پر بعض اقلیتی قائدین کو ترنگا ریالی میں روانہ کیا لیکن حکومت کے نمائندوں نے پارٹی اور حکومت کے فیصلہ کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ کے سی آر بلدی انتخابات میں مسلمانوں کی تائید سے محروم ہونا نہیں چاہتے لہذا وہ بیک وقت دونوں ووٹ بینک پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وزراء ، ارکان اسمبلی اور پارٹی کے اقلیتی قائدین میں سے کسی نے بھی آج تک شہریت قانون اور این آر سی کے بارے میں بیان بازی نہیں کی۔ مسلمان اس مسئلہ پر ٹی آر ایس کے مسلم قائدین سے سوال کررہے ہیں لیکن وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناتے ہوئے گریز کررہے ہیں۔ اقلیتی قائدین کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ چیف منسٹر کو مسلمانوں کے جذبات سے زیادہ ہندو ووٹ بینک کی فکر ہے۔ چیف منسٹر سے قربت رکھنے والے قائدین کا کہنا ہے کہ این آر سی اور این پی آر پر کے سی آر مغربی بنگال اور کیرالا کی طرح کھل کر مخالفت نہیں کریں گے بلکہ مرکزی حکومت کو فیصلوں میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کی تکمیل تصور کریں گے۔ جہاں تک شہریت قانون کا معاملہ ہے حکومت کا موقف ہے کہ کسی بھی مرکزی قانون پر ریاستوں کو کوئی اختیار نہیں ۔ مرکز کے ہر قانون پر عمل آوری ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف مسلمان اور دیگر سیکولر طاقتیں چیف منسٹر سے موقف کے اظہار کا مسلسل مطالبہ کررہے ہیں۔