ملک میں علاقائی جماعتوں کا عروج، بی جے پی اور کانگریس نے مایوس کردیا، نئی دہلی میں انڈیا ایکشن پلان سمٹ میں شرکت
حیدرآباد۔ 13 فروری (سیاست نیوز) وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی راما رائو نے کہا کہ مضبوط ریاستیں ایک مضبوط ملک کے قیام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ نئی دہلی میں ایک قومی نیوز چینل کی جانب سے منعقدہ سمٹ انڈیا ایکشن پلان 2020ء میں ہندوستان کی تعمیر اور ریاستوں کے رول پر خطاب کرتے ہوئے کے ٹی آر نے کہا کہ ہندوستان ریاستوں کا مجموعہ ہے۔ مضبوط ریاستوں کا مطلب ایک مضبوط ملک ہوسکتا ہے۔ اگر حکومتِ ہند ٹیم انڈیا یا باہمی وفاق پر یقین رکھتی ہے تو اسے اختیارات غیر مرکوز کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ مرکز اور ریاستوں کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کے ٹی راما رائو نے کہا کہ مرکز کو اس حقیقت تسلیم کرنا چاہئے کہ ریاستی حکومتیں مرکزی فنڈس میں حصہ ادا کرتی ہیں۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس احساس کو ذہن سے نکال دیں کہ وہ اپنی پاکٹ سے ریاستوںکو فنڈس الاٹ کررہی ہے۔ کے ٹی آر نے کہا کہ تلنگانہ ریاست نے مرکز کو دو لاکھ 72 ہزار کروڑ فنڈس کی حصہ داری دی ہے۔ جبکہ مرکز نے گزشتہ پانچ برسوں میں تلنگانہ کو صرف ایک لاکھ 12 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے۔ شہریت ترمیمی قانون کے بارے میں کے ٹی آر نے کہا کہ ٹی آر ایس پارٹی نے پارلیمنٹ میں شہریت بل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھنے کی ٹی آر ایس مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس کثرت میں وحدت پر ایقان رکھتی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کے بارے میں سوالات پر کے ٹی آر نے کہا کہ دونوں پارٹیاں ٹی آر ایس کی دشمن نہیں بلکہ صرف سیاسی حریف ہیں۔ دونوں قومی جماعتوں نے گزشتہ برسوں میں ملک کو نظرانداز کردیا۔ علاقائی جماعتوں اور ہندوستانی سیاست میں ان کے رول کے بارے میں کے ٹی آر نے کہا کہ علاقائی جماعتیں ملک کی تعمیر میں قومی جماعتوں کے متبادل کے طور پر تیزی سے مستحکم اور طاقتور بن کر ابھر رہی ہیں۔ کے ٹی آر نے نوٹ بندی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹی آر ایس نے اس امید کے ساتھ نوٹ بندی کی تائید کی تھی کہ یہ فیصلہ ملک کے لیے بہتر رہے گا لیکن آج ٹی آر ایس کا خیال ہے کہ نوٹ بندی کی تائید کرنا درست نہیں تھا۔ کے ٹی آر نے کہا کہ وفاقی نظام صرف ریاستوں کو اختیارات تک محدود نہیں بلکہ معاشی طور پر اختیارات غیر مرکوز کرنے سے ملک خوشحال ہوگا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مرکزی حکومت نے نیتی آیوگ کی سفارشات کو نظرانداز کردیا ہے اور مشن بھگیرتا، مشن کاکتیا اور کالیشورم پراجیکٹ کے لیے فنڈس الاٹ نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو معاشی اصلاحات اور معاشی ذمہ داریوں اور بجٹ مینجمنٹ میں مزید فرخدلانہ ہونا چاہئے۔ فراخدلانہ پالیسی کے نتیجہ میں ملک تیزی سے ترقی کرسکتا ہے۔ سمٹ کے دوران سینئر جرنلسٹ نے کے ٹی آر سے ملک اور ریاست کو درپیش مختلف امور پر سوالات کئے۔ کے ٹی آر نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں علاقائی جماعتوں کا عروج ہے جبکہ قومی جماعتیں عوامی اعتماد سے محروم ہورہی ہیں۔ انہوں نے بی جے پی اور کانگریس کو بڑے سائیز کی علاقائی پارٹیاں قراردیا۔ کے ٹی آر نے کہا کہ نظریاتی اختلاف کے نتیجہ میں مرکز کو ریاستوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کے ان فیصلوں کی تائید کی جو ملک اور عوام کے حق میں ہیں جبکہ عوام کے برخلاف فیصلوں کی مخالفت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی سے ملک کو فائدے کے بارے میں مرکز نے باور کرایا تھا جس پر ٹی آر ایس نے تائید کی لیکن آج واضح ہوچکا ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ملک کے لیے نقصاندہ تھا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ مستقبل قریب میں علاقائی جماعتیں مرکز میں متبادل کے طور پر ابھریں گی۔ دونوں قومی علاقائی جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ معاشی ترقی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور فلاحی پروگراموں پر عمل آوری میں دونوں پارٹیاں عوام کی توقعات پر اترنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کو شہریت قانون جیسے متنازعہ امور توجہ دینے کے بجائے ملک کو درپیش بنیادی مسائل پر توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد اپنی غیر معمولی ترقی کے نتیجہ میں گزشتہ پانچ برسوں سے ملک میں رہائش کے لیے موزوں اور بہترین مقام کے طور پر اپنی شناخت بناچکا ہے۔ ملک کے دوسرے دارالحکومت کے طور پر اگر حیدرآباد کی تجویز پیش ہوتی ہے تو حیدرآباد کے عوام اسے قبول کریں گے یا نہیں مجھے شبہ ہے۔