مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو منطقی موقف دینے کی کوشش:ایمنسٹی انٹرنیشنل کابیان ‘ ہمارا داخلی معاملہ : ہندوستان
واشنگٹن ۔ یکم فبروری ( سیاست ڈاٹ کام ) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی قانون سازوں سے کہا ہے کہ حال ہی میں ہندوستان میں جو شہریت ترمیمی قانون منظور ہوا ہے وہ خود ہندوستان کے دستور اور بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو قانونی شکل دی جا رہی ہے ۔ نئے شہریت قانون کو ہندوستان کی پارلیمنٹ نے ڈسمبر 2019 میںمنظور کیا ہے جس کے ذریعہ پاکستان ‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم معتوب اقلیتوں کو شہریت دینے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ حکومت ہند کی جانب سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ کسی کے شہریت حقوق کو تلف نہیں کیا جائیگا بلکہ یہ پڑوسی ملکوں میں اقلیتوں کی مدد کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے اور انہیں ہندوستان کی شہریت دی جائے گی ۔ اینسٹی انٹرنیشنل ایشیا پیسیفک کے نمائندے فرانسسکو بن کوسمے نے امریکی کی ایوان برائے خارجی امور کی سب کمیٹی برائے افریقہ ‘ عالمی صحت ‘ عالمی انسانی حقوق و بین الاقوامی تنظیم کے روبرو پیش ہوتے ہوئے یہ ریمارکس کئے ۔ انہوں نے اس سب کمیٹی کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی قانون منظور کیا گیا ہے ہے جس کے تحت مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو قانونی موقف دیا جارہا ہے اور یہ در اصل خود ہندوستان کے دستور اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ہندوستان نے واضح کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون جامع طریقہ کار کے مطابق منظور کیا گیا ہے ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے شہریت قانون پر تنقیدوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی اے اے ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے اور یہ قانون ایک جامع طریقہ اور جمہوری انداز میں تیار کیا گیا ہے ۔ سی اے اے کی مدافعت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ مہینے کہا تھا کہ یہ قانون کسی کی شہریت واپس لینے سے متعلق نہیں بلکہ پڑوسی ملکوں کے باشندوں کو شہریت دینے سے متعلق ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کسی بھی مذہب ‘ کسی بھی ملک کا باشندہ جو ہندوستانی دستور میں یقین رکھتا ہے وہ شہریت کیلئے رجوع ہوسکتا ہے ۔