شہریت کے ثبوت کیلئے درکار دستاویزات پر الجھن

   

ووٹر آئی ڈی کارڈس سے متعلق گوہاٹی اور ممبئی ہائیکورٹ کے الگ الگ فیصلوں پر عوام کی بے چینی میں اضافہ
حیدرآباد۔23فروری(سیاست نیوز) ملک میں شہریت ثابت کرنے کیلئے کونسے دستاویزات کافی ہیں!اس بات پر تاحال حکومت کا بھی اتفاق نہیں ہے تو کس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دستاویزات شہریت کے ثبوت کیلئے کافی ہیں یا یہ دستاویزات کافی نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ووٹر شناختی کارڈشہریت کے ثبوت کیلئے کافی نہیں ہے۔ 12 فروری کو گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد 15 فروری کو بمبئی ہائی کورٹ نے ووٹر آئی ڈی کارڈ کو شہریت کے لئے کافی دستاویز قرار دیا ۔ عوام میں اس طرح کے فیصلوں سے تشویش پیدا ہونے لگی ہے لیکن ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ آسام میں ہوئے این آر سی اور آسام سمجھوتہ کے تحت گوہاٹی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے اور بمبئی ہائی کورٹ نے شہریت قوانین کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے۔ شہریت کیلئے کونسے دستاویزات کارکرد ہیں اس سلسلہ میں خود حکومت واضح نہیں کر پا رہی ہے اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں یہ بات وضاحت کے ساتھ کہی جا چکی ہے کہ ہندستان میں شہریت کے لئے کونسے دستاویزات قابل قبول ہوں گے اس سلسلہ میں کوئی
وضاحت یا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے جلد ہی حکومت ہند کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔

ہندستان میں شہریت قوانین کے سلسلہ میں موجود وضاحت کا جائزہ لیا جائے تو شہریت قوانین 1955 کی دفعہ 3میں پیدائش کے ساتھ حق شہریت کی گنجائش موجود تھی جس میں یکم جنوری 1950کے بعد پیدا ہونے والے ہر بچہ کو ہندستانی شہریت کا مجاز گردانا گیا تھا لیکن 1986 میں شہریت مرممہ قوانین جو کہ پہلی ترمیم تھی اس کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یکم جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 تک ہندستان میں پیدا ہونے والے تمام ہندستانی باشندگان کو ہندستانی شہری تصور کیا جائے گا اور شہریت مرممہ قوانین 1986 کے مطابق یکم جولائی 1987 کے بعد پیدا ہونے والے بچہ کے والدین میں ماں یا باپ کا ہندستانی شہری ہونا لازمی ہے اس قانون کے قابل عمل ہونے کے بعد یہ طئے کیا گیا کہ ہندستان میں پیدا ہونے والے کو شہریت نہیں حاصل ہوگی بلکہ پیدا ہونے والے بچہ کے ماں یا باپ دونوں میں کسی ایک کا ہندستانی شہری ہونا لازمی قرار دیا گیا ۔ یکم جولائی 1987 سے نافذ ہوئے اس شہریت قانون پر 2003 تک عمل آوری کا سلسلہ جاری رہا اور 2003میں شہریت قوانین میں کی گئی ترمیم کے ساتھ ہی یہ قانون نافذ ہوا کہ ہندستان میں پیدا ہونے والے اسی بچہ کو ہندستانی شہریت حاصل ہوگی جو کہ ہندستانی والدین کی نسل ہو اور ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق غیر قانونی تارک وطن سے نہ ہو۔2003 میں کی گئی شہریت قوانین میں اس ترمیم کے بعد جائے پیدائش کے ساتھ والدین کی جائے پیدائش اور ان کی شہریت بھی ہندستانی شہریت کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے جن دستاویزات کو شہریت کے لئے ثبوت تصور کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے

ان میں ووٹر شناختی کارڈ‘ پٹہ پاس بک‘ جائیداد کی خریدی کے دستاویزات‘ پاسپورٹ ‘ آدھار کارڈ‘ لائسنس‘ انشورنس ‘ صداقتنامۂ پیدائش اور تعلیمی اسنادات کو شامل کئے جانے کا امکان ہے لیکن اس سلسلہ میں قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ آسام میں جابیدہ بیگم کے مقدمہ میں 15دستاویزات دکھائے جانے کے باوجود ان کی شہریت کو مشتبہ قرار دیئے جانے پر کہا جا رہاہے کہ وہ این آر سی کے عمل سے گذرچکی ہیں اسی لئے انہیں آسام سمجھوتہ کے بنیاد پر دیکھا جا رہاہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ شہریت کے لئے جن دستاویزات کو قابل قبول قرار دیئے جانے کے متعلق منصوبہ بندی کی جا رہی ہے وہ بھی قابل عمل نہیں ہے کیونکہ پیان کارڈ کو اگر شہریت کے ثبوت کیلئے کافی تصور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ جن لوگوں کو ہندستان میں ٹیکس ادا کرنا ہے ان کو بھی پیان کارڈ بنانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح آدھار کارڈ شہریت کے ثبوت کیلئے کافی نہیں ہے۔اسی طرح لائسنس بھی غیر ملکی افراد کو جاری کیا جاتا ہے۔ اسی لئے لائسنس‘ پیان کارڈ اور آدھار کو شہریت کا ثبوت تصور نہیں کیا جاسکتا۔پاسپورٹ کے سلسلہ میں بھی دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق پاسپورٹ رکھنے والا ضروری نہیں کہ ہندستانی شہری ہو اسی طرح ووٹ شناختی کارڈ کے سلسلہ میں یہ کہا جا رہاہے کہ فہرست رائے دہندگان میں جن کا نام ہے وہ ہندستانی شہری ہوتا ہے کیونکہ وہ انتخابی قوانین کے مطابق فارم 6داخل کرتا ہے اور فارم 6 کی تفصیلات کی جانچ کے بعد ہی اس کا نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کیا جاتا ہے ۔ گوہاٹی ہائی کورٹ اور بمبئی ہائی کورٹ کے ان دو فیصلوں کے بعد عوام کی بے چینیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ عوام کو اب یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ ان کے لئے کونسے دستاویزات کارکرد ہیں اور کونسے دستاویزات نہیں ہیں ۔ اسی لئے جب تک حکومت کی جانب سے شہریت کے ثبوت کیلئے قابل قبول دستاویزات کا اعلان کرتے ہوئے اعلامیہ جاری نہیں کیا جاسکتا اس وقت تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔