آفات سماوی سے نمٹنے کیلئے جی ایچ ایم سی اور حکومت کے منصوبہ بندی کا فقدان
تالابوں اور نالوں سے قبضے فوری برخاست کرنے پر زور ، موسیٰ ندی میں پانی بہنے کے انتظامات کا مشورہ
حیدرآباد: نیتی آیوگ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہیکہ شہر حیدرآباد کے اطراف و اکناف نالوں اور تالابوں پر غیرمجاز قبضوں کی وجہ سے گذشتہ سال اکٹوبر میں ہوئی ریکارڈ سطح کی بارش اور سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات پیش آئے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں تالابوں، کنوؤں وغیرہ میں چھوٹے بڑے ملا کر تقریباً ایک لاکھ پانی کے ذرائع تھے۔ آہستہ آہستہ ان پر قبضے ہوگئے جن کی تعداد گھٹ کر 185 تک محدود ہوگئی۔ بارش کے پانی کے گذرنے کے بیشتر راستے قبضے ہوگئے ہیں۔ ذخائر آب میں پانی زیادہ مقدار میں جمع ہونے کی صورت میں پانی کی نکاسی کیلئے جو چینلس تھے وہ قبضوں کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن یا حکومت کے پاس آفات و سماوی سے نمٹنے کیلئے کوئی انتظامات نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مناسب منصوبہ بندی ہے۔ مستقبل میں اس طرح کے قدرتی آفات سماوی کے تدارک کیلئے دونوں شہروں کے ڈرینج نظام کو توسیع دینے کے علاوہ پانی کی نکاسی کے تمام راستوں کا احیاء کرنے کی سفارش پیش کی ہے۔ شہر میں کہیں بھی بارش ہو زیرزمین ڈرینج کے ذریعہ پانی کو موسیٰ ندی میں پہنچانے کے اقدامات کئے جائیں۔ نیتی آیوگ کے نائب صدر راجیو کمار کی قیادت میں 16 ارکان پر مشتمل کمیٹی نے سیلاب کی روک تھام کیلئے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ ملک بھر میں سرحدوں کے حدود میں سیلاب کنٹرول ندی کے انتظامی سرگرمیوں کے ماہرین کے ذریعہ مختلف امور کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں حیدرآباد میں سیلاب کی وجوہات اور مستقبل میں ایسے حالات کی روک تھام کیلئے احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ گذشتہ سال 14 اکٹوبر کو حیدرآباد میں شدید سیلاب آیا تھا۔ شہر کے کئی مقامات پر 10 تا 12 فیٹ پانی میں متعدد کالونیاں ڈوب گئی تھیں اور پانی نے کئی کالونیوں کو گھیر لیا تھا۔ جی ایچ ایم سی کے اندازہ کے مطابق کم از کم 37,409 خاندان متاثر ہوئے تھے۔ 33 افراد ہلاک ہوئے اور 670 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ شہر حیدرآباد میں تالابوں کے لبریز ہونے سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ حسین ساگر کے تالابوں میں غیرمجاز قبضوں کی وجہ سے سیلاب کا پانی نہروں سے باہر آ گیا جو جو یہی پریشانی کی وجہ بن گیا جس کی وجہ سے سیلاب کے اثرات میں شدت پیدا ہوگئی اور زیادہ تر علاقے زیرآب آگئے۔ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران پانی کے وسائل کی تعداد میں زبردست کمی آگئی ہے۔ موجود 185 تالابوں میں سے 75 تالابوں کے پانی کی نکاسی کے چینلس پوری طرح مسدود ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے موسمی حالات کے آگاہی سے استفادہ کرنے کیلئے راڈرس کا مکمل سطح پر استعمال نہیں کرپارہی ہے جس سے قدرتی آفات سماوی پر مناسب توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ مستقبل میں ایسے حالات پر فوری قابو پانے کیلئے ڈرینج نظام کو توسیع دی جائے۔ سال 1989ء سے 2001ء کے درمیان شہر حیدرآباد میں 3,245 آبی وسائل ضائع ہوئے ہیں۔ مستقبل میں ٹاؤن پلانرس ہائیڈرو جیولوجی کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیری و ترقیاتی کاموں کے علاوہ اراضی کو استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ سیلاب کے پانی کا رخ موڑنے کیلئے حیدرآباد میں موجود 185 تالابوں کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے اور ساتھ ہی نالوں سے ناجائز قبضوں کو برخاست کیا جائے۔ نہروں، نالوں، آبی گزرگاہوں، سیلاب زدہ حدود کی واضح طور پر نشاندہی کرتے ہوئے نئے ترقیاتی کاموں کو ان سے دور رکھا جائے۔ نئے لے اوٹس کی منظوری کے وقت تمام متعلقہ قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کیا جائے۔ کہیں بھی بارش ہو موسیٰ ندی میں پانی پہنچنے کیلئے زیرزمین نکاسی آب کا نظام بنایا جائے۔