شہر میں غیر مسلمہ اسکولس کی تعداد میں اضافہ ‘ طلبا کا مستقبل داؤ پر لگنے کااندیشہ

   

کئی مقامات پر قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں۔ محکمہ تعلیمات کے عہدیداروں کی مسلسل غفلت و لاپرواہی کا سلسلہ جاری

حیدرآباد ۔22جنوری ( سیاست نیوز) ضلع میں غیر مسلمہ اسکولس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور تقریباً 200غیر مسلمہ اسکولس ہیں ۔ محکمہ تعلیمات کے عہدیداران کی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہدیداروں کے پاس مسلمہ اور غیر مسلمہ اسکولس کی تعداد کی مکمل تفصیلات ہی دستیاب نہیں ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کس قدر دگرگوں ہیں ۔ ضلع میں پرائمری تا ہائی اسکولس کئی غیر مسلمہ اسکولس ہونے کے باوجود حکام کی جانب سے کارروائی نہ کی جانے پر تنقیدیں کی جارہی ہیں ۔ دراصل مسلمہ اسکولس کی نشاندہی نہ کی جانے کی وجہ سے ان اسکولس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کے مستقبل داؤ پر لگنے کے خدشات ہیں ۔ ضلع میں 2,293پرائیوٹ اسکولس میں 6,25,779 طلباء و طلبات زیر تعلیم ہیں ۔ سکندرآباد کے علاقہ بکریوں کی منڈی کے پاس سرکاری اسکولس کے قریب غیر مسلمہ خانگی اسکول چلائے جانے کے باوجود عہدیداروں کی جانب سے کارروائی نہ کی جانے پر احتجاج درج کیا جارہا ہے اور کئی لوگوں کا سوال ہے کہ سرکاری اسکولس کے بازو ہی خانگی اسکولس چلانے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے ، حالانکہ قانون کے مطابق کسی بھی سرکاری اسکول کے بازو پرائیوٹ اسکول چلانے کی اجازت نہیں ہے اور قانون کے مطابق کم از کم سرکاری اسکول سے ایک کلومیٹر دور پر ہی پرائیوٹ اسکول چلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت نے جی او ایم ایس نمبر (1)جاری کرکے حکم دیا تھا کہ کسی علاقہ میں پرائیوٹ اسکولس کے قیام کیلئے علاقہ کی آبادی کا تناسب مدنظر رکھا جائے ۔ اسکے باوجود ضلع میں محکمہ تعلیمات کے عہدیداروں کی بدعنوانیوں سے ایک کے بازو دوسرے اسکول کا قیام عمل میں آرہا ہے اور ان تمام حالات سے اعلیٰ عہدیداران کو آگہی کے باوجود کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت سرکاری اسکولس میں تمام سہولیات فراہم کر کے سرکاری اسکولس میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے مگر عہدیداران حکومت کی کوششوں پر پانی پھیر رہے ہیں ۔ ماضی میں کئی بدعنوانیاں منظر عام پر آنے کے باوجود اعلیٰ عہدیداران موثر اقدامات کرنے میں ناکام ہونے پر شدید تنقیدیں کی جارہی ہیں اور یہ بھی الزامات ہیں کہ محکمہ تعلیمات کے افسران کی بدعنوانیوں اور لاپرواہی کی وجہ سے ہی ضلع میں خانگی اسکولس کی تعداد میں زبردست اضافہ ہورہا ہے ۔ جس کی وجہ سے اولیائے طلبہ اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے بچے جس اسکولمیں زیر تعلیم ہیں ان کی مسلمہ حیثیت ہے یا نہیں ۔ ضلع میں نقلی پرائیوٹ اسکولس کی عارضی مسلمہ حیثیت ( ای ٹی آر ) کا مسئلہ منظر عام پر آنے کے بعد ریاستی سطح پر بھونچال آگیا تھا ۔ 14 پرائیوٹ ہائی اسکولس کو عارضی مسلمہ حیثیت دیئے جانے کا مسئلہ ضروری 2018ء کے پہلے ہفتہ میں منظر عام پر آیا تھا اور اس طرح 14 اسکولس کو لاکھوں روپئے رشوت لیکر ای ٹی آر فراہم کرنے کے معاملہ میں ڈی ای او اور آر جے ڈی دفاتر سے تعلق رکھنے والے 7ملازمین کو برطرف کردیا گیا تھا اور ان میں سے 5ملازمین کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور جو اس گھپلہ کے بعد ڈی ای او نے سال گذشتہ جون میں اعلان کیا تھا کہ مسلمہ اسکولس کی فہرست آن لائن جاری کی جائے گی مگر تاحال فہرست کی عدم اجرائی سے واضح ہوتا ہے کہ حالات کس قدر خراب ہیں ۔دراصل ضلع کے 23منڈلس میں انچارج افسران ہونے کی وجہ سے ہی محکمہ تعلیمات میں بدعنوانیاں پیش آرہی ہیں ۔ مستقل ڈین ای اوز کے تقررات نہ کرتے ہوئے حکومت نے صدر مدرسین کو ہی ڈپٹی ای اوز کی زائد ذمہ داریاں دی ہے جس کی وجہ سے پرائیوٹ اور سرکاری اسکولس کی نگرانی نہیں ہورہی ہے اور نتیجہ میں پرائیوٹ اسکولس انتظامیہ من مانی کررہا ہے اور سرکاری اسکولس کے نتائج خاطرخواہ نہیں آرہے ہیں ۔ تعلیمی عہدیداروں کو چاہیئے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے طلبہ کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کریں ۔