آصف جاہی حکمرانوں کی دوراندیشی نے حیدرآباد کو ڈوبنے سے بچالیا
۔1908 ء کی طغیانی کے بعد حمایت ساگر و عثمان ساگر کی تعمیر، بارش کا پانی روکنے کی موثر منصوبہ بندی
حیدرآباد: سلطنت آصفیہ کے فرمارواںآصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خان اور آصف جاہ ہفتم نواب میر عثمان علی خان کی دور اندیشی نے شہر حیدرآباد کو ایک مرتبہ پھر سے ڈوبنے سے بچا لیا اگر نواب میر محبوب علی خان نے 1908کی طغیانی سے سبق حاصل کرتے ہوئے حمایت ساگرو عثمان ساگر کی تعمیر نہ کی ہوتی تو شہر حیدرآباد کو تباہ ہونے سے کوئی نہ بچا سکتا۔محکمہ موسمیات کے مطابق شہر حیدرآباد میں گذشتہ 24گھنٹوں کے دوران ہونے والی بارش نے 117 سال کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور 1903 میں اس طرح کی بارش ہوئی تھی ۔ شہر حیدرآباد میں ریکارڈ کی گئی بارش کے متعلق محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ گذشتہ 24گھنٹوں کے دوران 341 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے اور شہر حیدرآباد کے اطراف کے علاقوں میں بھی مسلسل بارش کا سلسلہ جاری رہا ۔1908 میں شہر حیدرآباد میں آئی طغیانی شہر حیدرآباد میں جو تباہی مچائی تھی اس سے زیادہ بارش گذشتہ شب سے صبح 8 بجے تک ریکارڈ کی گئی ہے۔شہر حیدرآباد میں 1908 کے دوران ہونے والی تباہی سے زیادہ تباہی ہوتی اگر عثمان ساگر اور حمایت ساگر تعمیر نہ کئے جاتے اور بارش کے پانی کو روکنے کیلئے منصوبہ بندی نہ کی جاتی۔اس کے علاوہ آج بھی شہر حیدرآباد ان علاقوں میں جہاں سلطنت آصفیہ کے دور کی ڈرینیج لائن موجود ہے ان علاقوں میں پانی جمع ہونے کی شکایات موصول نہیں ہوتی۔1908 میں آئی طغیانی کے بعد آصف ششم نواب میر محبوب علی خان جنہیں رعایابصد احترام محبوب علی پاشاہ سے یاد کرتی ہے نے موسیٰ ندی کا دورہ کرتے ہوئے تباہی کا جائزہ لینے کے بعد حمایت ساگر اور عثمان ساگر کی تعمیر کا اعلان کیا تاکہ شہر حیدرآباد میں دوبارہ اس طرح کی کوئی تباہی نہ ہوسکے ۔
اس دور کے حکمرانو ںکی دور اندیشی اور ان کے اعلانات پر عمل آوری کے سبب شہر حیدرآباد تباہی سے محفوظ رہا ۔عثمان ساگر جو کہ 3.9 ٹی ایم سی پانی جمع کرنے کا متحمل ہے اس ذخیرۂ آب کے علاوہ حمایت ساگر 2.9ٹی ایم سی پانی کو روکنے کی اہلیت کا حامل ہے اگر یہ ذخائر آب نہ ہوتے تو شہر حیدرآباد 112 سال پر ایک اور طغیانی کا شکار ہوتا۔مسلسل بارش اور پانی کے بہاؤ کی رفتارکو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی عملہ کا کہناہے کہ سابق کی کسی بھی بارش کے دوران اس رفتار سے انی کا بہاؤ نہیں دیکھا گیا۔شہر حیدرآباد میں جمہوری حکمرانوں کے دور میں کی جانے والی ترقی کے دوران بارش کے پانی کی نکاسی کے مناسب انتظامات ممکن نہیں کئے جاسکے لیکن آصف جاہی دور کے فیصلوں اور اقدامات کے سبب شہر حیدرآباد 1908 میں رود موسیٰ میں آئی طغیانی کی تباہی سے محفوظ رہا ۔نواب میر محبوب علی خان نے اپنے دور میں دونوں ذخائر آب کے منصوبہ کو منظوری دی تھی لیکن 1911میں ان کے سانحۂ ارتحال کے آصف جاہ ہفتم نواب میر عثمان علی خان بہادر نے اپنے دور حکمرانی میں ان دونوں ذخائر آب کو مکمل کیا اور عوام کے تحفظ کے اقدامات کو یقینی بنایا جس کی وجہ سے شہر حیدرآباد طغیانی سے محفوظ ہوگیا ۔شہر میں گذشتہ شب ہونے والی بارش کے دوران کئی علاقہ تالاب میں تبدیل ہوچکے ہیں جو کہ مختصر مدتی منصوبہ بندی اور حقیر شخصی مفادات کو پیش نظر رکھنے کا نتیجہ تصور کیا جا رہاہے۔