شہر کے نواح میں اراضی کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ

   

Ferty9 Clinic

سرمایہ اور مستقبل کا اثاثہ سمجھی جانے والی اراضیات کو خطرہ لاحق
حیدرآباد۔/19 جولائی، ( سیاست نیوز) شہر اور نواحی علاقوں میں اراضی کی اہمیت میں اضافہ کے بعد اب اراضیات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بہترین سرمایہ اور مستقبل کا اثاثہ سمجھے جانے والی اراضیات کو اب سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ زیورات، مال و دولت کے سرقہ ہونے کے خطرات کے سبب ایسا تصور کیا جانے لگا کہ اراضیات کا کوئی سرقہ نہیں کرسکتا لیکن اب سب سے زیادہ خطرہ اس محفوظ سرمایہ کو ہوگیا ہے۔ زیورات ، مال و دولت کو تو عادی مجرمین اور پیشہ ور افراد سے خطرہ ہے لیکن اراضیات کی لوٹ مار سفید پوش انداز میں سیاسی چولے میں کی جانے لگی ہے اور اس حملہ میںکوئی محفوظ نہیں رہا۔ لٹیرے زیورات اور مال و دولت کو رات کے اندھیرے میں لوٹتے ہیں تو اراضیات پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو اراضی مالکین کی غفلت ہی کافی ہے۔ ایسے شہری جو اپنی محنت کی کمائی پلاٹس اور اراضی کی شکل میں رکھنا چاہتے ہیں یا پھر رکھ چکے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس پر اتنی ہی شدت سے نظر رکھیں۔ اراضی کی حصار بندی اور اس پر نام رکھنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کی دیکھ بھال اس سے بھی زیادہ چوکسی سے کرنی ہوگی چونکہ گذشتہ روز شہر کے پاش علاقہ میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا جہاں رکن راجیہ سبھا اور بی آر ایس کے سرکردہ قائد کے کیشو راؤ کے فرزند نے ایک اراضی پر قبضہ کرلیا حالانکہ اراضی کئی سال قبل مالکین کی جانب سے خریدی گئی تھی اس کے جعلی دستخط کرتے ہوئے اس کروڑہا روپئے قیمتی اراضی کو فروخت کردیا گیا۔ ضعیف 72 سالہ خاتون کو اراضی کی فروخت کا اس وقت اندازہ ہوا جب محکمہ انکم ٹیکس کے ذریعہ نوٹس وصول ہوئی۔ اراضی کو فروخت کرنے کے بعد رقم کی ادائیگی سے متعلق حاصل نوٹس کو دیکھ کر خاتون پریشان ہوگئی اور جب اس نے مسئلہ کو پولیس سے رجوع کیا تو پولیس نے کارروائی سے انکار کردیا۔ خاتون نے جو نیوجرسی میں رہتی تھی نامپلی کی مقامی عدالت سے رجوع ہوکر مسئلہ کو پیش کیا اور عدالت کے حکم پر بنجارہ ہلز پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ اراضیات پر قبضہ کرنے والے ناجائز قابضین اور لینڈ گرابرس کا انداز ہی نرالہ ہوتا ہے پہلے تو دستاویزات کی نقل حاصل کی جاتی ہے اور پھر نقلی دستاویزات کو حاصل کرلیا جارہا ہے۔ اراضی کے حقیقی مالکین کی تفصیلات اور آدھار کارڈ کیلئے فون نمبر کا استعمال کرتے ہوئے تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں اور اس کے بعد پولیس کی مدد سے اراضیات پر باضابطہ قبضہ کیا جاتا ہے اور جب تک حقیقی مالکین کو اس کا علم ہوتا ہے مسئلہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ پولیس بھی اپنی چاندی بناتے ہوئے حقیقی مالکین کی شکایت پر ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی سے گریز کرتی ہے۔ لینڈ گرابرس نے غنڈہ عناصر اور پولیس کی مدد سے باآسانی اپنا کام کررہے ہیں۔ اگر لینڈ گرابرس کا تعلق کسی سیاسی گروپ سے ہو توپھر اس کے خلاف شکایت کو قبول نہیں کیا جاتا ہے جیسا کہ گذشتہ روز الوال علاقہ میں ایک شخص نے مقامی رکن اسمبلی پر الزامات لگائے۔ ان لینڈ گرابرس سے پولیس کے تعلقات کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تبادلہ کے بعد بھی پولیس عہدیدار مسلسل ان سے رابطہ میں رہتے ہیں اور لینڈ گرابرس کا کوئی کام کسی بھی حدود میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اراضیات اور پلاٹس مالکین کو چاہیئے کہ وہ اپنی اراضیات کی حفاظت پر خصوصی توجہ دیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی جعلی دستاویزات کے ذریعہ اراضی پر دعویٰ نہ کرلے بلکہ غنڈہ گردی کرتے ہوئے ڈرا دھمکاکر اراضی پر قبضہ نہ جمادے چونکہ محکمہ پولیس سے انصاف کی امید کرنا کافی نہیں ہے۔ سابق میں پولیس کے کئی عہدیداروں کو اعلیٰ عہدیداروں نے اراضیات کے معاملات میں ملوث ہونے اور خصوصی دلچسپی دکھانے پر خدمات سے معطل کردیا ہے۔ع