پرول چندرا
بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کے مسائل کا سلسلہ برقرار ہے ۔ تازہ ترین مشکل صفورتحال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ بنگلہ دیش نے مفرور وزیر اعظم شیخ حسینہ کو حوالے کرنے کے مطالبہ کو دہرایا ہے ۔ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی بین الاقوامی جرائم کی ٹریبونل نے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میںسزائے موت سنائی تھی حالانکہ نئی دہلی کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا زیادہ امکان نہیں ہے لیکن ہندوستان کا استرداد بنگلہ دیش میں مخالف ہند جذبات کو مزید فروغ دینے کا باعث ہوسکتا ہے ۔ شیخ حسینہ کو طلباء کی ایک کامیاب بغاوت نے اقتدار سے بیدخل کردیا تھا ۔ جو مخالف ہند جذبات ہیں وہ ہندوستان کے حکمتع ملی مفادات کو خظرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہند ۔ بنگلہ دیش تعلقات پہلے ہی محمد یونس کی عبوری حکومت میں مسائل کا شکار ہورہے ہیں اور کئی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ 78 سالہ شیخ حسینہ گذشتہ سال 5 اگسٹ کو اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد بنگلہ دیش سے فرار ہوکر ہندوستان میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہی ہیں۔
عوامی لیگ کی رہنما کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی کر نئی دہلی نے ایک طرح سے ان کے ایک قابل قدر رول کا اعتراف کیا ہے کیونکہ شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کی حیثیت سے ہندوستان کے سکیوریٹی مفادات کو ذہن میں رکھا تھا ۔ بنگلہ دیش تعلقات میںرکاوٹ بن سکتی ہے ۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بنگلہ دیش میں عنان اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے ۔ شیخ حسینہ کی غیر حاضری میںسنائی گئی سزا پر ہندوستان کا رد عمل کافی محتاط رہا ہے ۔ اس سزا کو دھاندلی قرار دیا گیا تھا ۔ ہندوستان نے اس بیان کے ذریعہ بنگلہ عوام تک رسائی کی کوشش کی ہے کہ اس نے بین الاقوامی جرائم ٹریبونل کا فیصلے کا نوٹ لیا ہے ۔ ہندوستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے پڑوسی ملک میں امن ‘ جمہوریت ‘ استحکام سمیت بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفادات کیلئے پرعزم ہے ۔ محمد یونس کی حکومت سے بھی تعلقات بہتر بنانے ہندوستان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ تمام اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ تعمیری انداز میںسرگرم رہے گا ۔ ہندوستان واضح طور پر جانتا ہے کہ اس کے پاس بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے ساتھ کام کرنے اور مصروفیت برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت کے صوابدید پر ہی منحصر ہے ۔
چونکہ بنگلہ دیش میں عبوری انتظامیہ نے عوامی لیگ کو تمام سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھا ہے اس لئے عوامی لیگ کی بنگلہ دیش کے اقتدار میں واپسی کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ محمد یونس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات اور جولائی چارٹر کے مطابق دستوری تبدیلیاں لانے ماہ فبروری میں استصواب عامہ ہوگا جو ایک ہی دن میں ہوگا تاہم اس کی تاریخ کا اعلان ابھی باقی ہے ۔ فی الحال ہندوستان ان جغرافیائی اثرات کے تعلق سے گہری تشویش میں مبتلا ہے جو بنگلہ دیش میں عدم استحکام کے طویل عرصہ سے اس کی اپنی سلامتی پر مرتب ہوسکتے ہیں اور وہ بروقت انتخابات کی امید کر رہا ہے ۔ انتخابی میدان میں دو اہم جماعتیں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی ہیں اور وہ واضح طور پر مخالف ہند موقف رکھتی ہیں۔ محمد یونس انتظامیہ نے ہند ۔ بنگلہ دیش باہمی تعلقات میں سنہرے باب کو سختی کے ساتھ بند کردیا ہے ۔ بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستان کی سلامتی کے تقاضوں کو نظرانداز کرنا اس کے پاکستان سے قرابت داری بڑھانے کی بے چینی سے ظاہر ہوتا ہے ۔ شیخ حسینہ نے پاکستان کوفاصلے پر رکھا تھا اور سخت موقف اختیار کیا تھا ۔ اس کے برابر چین بھی بنگلہ دیش میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے جس سے ہندوستان میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ سفارتی اور عسکری دونوں ہی سطحوں پر جھکاؤ رکھتا ہے اور بیجنگ ۔ اسلام آباد کا مشترکہ چیلنج اب ہندوستان کے سامنے آگیا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھا ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اقتصادی تعاون کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں اور اب ایک طویل عرصہ کے بعد براہ راست تجارت بھی دوبارہ شروع کردی گئی ہے ۔ 1971 میں سابق مشرقی پاکستان سے ٹوٹ کر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے راست تجارت میں رکاوٹیں تھیں۔ ہندوستان نے اپنے شمال مشرقی علاقہ سے رابطے کو فروغ دینے بنگلہ دیش میں چٹگانگ اور مونگلا بندرگاہوں کو استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کی تھی اس کیلئے بنگلہ دیش کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط بھی کئے تھے ۔ اس کے سرحد پار ریل رابطوں کے پراجیکٹس کا مقصد شمال مشرق تک رسائی فراہم کرنا ہے تاہم تعلقات میں سردمہری کے چلتے یہ پراجیکٹس بھی رک گئے ہیں۔
اب چونکہ بنگلہ دیش میں اسلام پسند عناصر کا غلبہ ہو رہا ہے اور محمد یونس کے انتظامیہ نے جماعت اسلامی پر پابندی برخواست کردی ہے ‘ جو شیخ حسینہ نے عائد کی تھی ‘ ہندوستان جانتا ہے کہ اپنے پڑوس میں اس کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی لگاتار موجودگی بھی ہندوستان کیلئے تشویش کی بات ہے ۔ روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے ۔ ہندوستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے قومی سلامتی مشیر خلیل الرحمن کی میز بانی کی جو بنگلہ دیش کے اہم سفارتکار کے طور پر ابھرے ہیں کولمبو سکیوریٹی کانکلیو کا بنگلہ دیش بھی جولائی 2024 میں رکن بن گیا ہے اور ہندوستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ تمام مصالحت کاروں کے ذریعہ بات چیت جاری رکھنی چاہئے اور اپنے سلامتی مفادات کو متاثر کرنے والی حدود کا بھی تعین کرنا چاہئے ۔