رام پنیانی
آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو زائد از تین ماہ گزر چکے ہیں۔ قانون نے جس طریقۂ کار کی صراحت کی ہے اسے نظرانداز کردیا گیا اور لوک سبھا میں اکثریت کے بل بوتے پر کشمیر کے عوام کو بالائے طاق رکھ کر اس قانون کو منظور کرالیا گیا۔ یوں تو کئی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، لیکن حالیہ دنوں میں دو باتیں پھر سے اُبھر آئی ہیں۔ 31 اکٹوبر کو سردار پٹیل کے یوم پیدائش پر سردار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کی برخاستگی کو ان سے معنون کیا۔ دلچسپ بات ہے کہ سردار پٹیل اُس کمیٹی کا کلیدی حصہ تھے جس نے مذکورہ آرٹیکل کا مسودہ تیار کیا تھا۔ نیز سردار پٹیل نے ہی دستورساز اسمبلی میں آرٹیکل 370 کی قرار پیش کی تھی کیونکہ اس مسئلے سے نمٹنے والے پنڈت جواہر لعل نہرو بطور وزیر امور خارجہ اُس وقت امریکہ گئے ہوئے تھے۔
گزرتے وقت کے ساتھ نہ صرف قدیم اور قرون وسطیٰ کی تاریخ کو فرقہ پرستانہ سیاست کی مناسبت سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے، بلکہ حالیہ تاریخ بھی مودی جیسے اشخاص کے سبب خطرہ میں ہے، جو موجودہ طور پر حکمرانی کررہے ہیں۔ دیگر نکتہ جو وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ عہدے دار پُرزور انداز میں پیش کررہے ہیں کہ اسی آرٹیکل کی وجہ سے دہشت گردی کو تقویت ملتی رہی! وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اس آرٹیکل کی تنسیخ کے ساتھ دہشت گردی کو گڑبڑزدہ ریاست میں قابو میں کیا جاسکتا ہے۔
چونکہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے، اس لئے یاد دلانا ضروری ہے کہ کہ ملک پر نوٹ بندی کا تباہ کن اقدام مسلط کرتے ہوئے اسی طرح کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ جعلی کرنسی دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے اور نوٹ بندی کشمیر میں عسکریت پسندی کو ختم کردے گی۔ نوٹ بندی کے محاسن کے تعلق سے دیگر دعوؤں کا جو حشر ہوا، یہ دعویٰ بھی بالکلیہ کھوکھلا اور جھوٹا ثابت ہوا۔ کشمیر میں نت نئی تحدیدات لاگو کردی گئی ہیں، جس کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہے، مقامی قائدین اور قومی قائدین کو وادی کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، چالاکی سے بعض یورپین رائٹ ونگ ایم پیز کے وفد کو ایک بزنس پرسن نے کسی این جی او کے نام پر یکجا کیا۔ جب ایم پی کرس ڈیویس نے کہا کہ وہ مقامی افراد سے اپنے طور پر ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو ان کے دعوت نامہ سے دستبرداری اختیار کرلی گئی اور شرائط کی تعمیل کرنے والے ایم پیز نے کشمیر کا سفر کیا۔ اُن کام یہ تھا کہ اس ٹور کے بعد جس کا انھوں نے لطف اٹھایا، مودی حکومت کے اقدام کو ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ کا سرٹفکیٹ دیا جائے۔ یہی دنوں میں حالانکہ ملٹری بڑی تعداد میں موجود تھی، اور حالانکہ ایسے دعوے کئے گئے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ وادی میں دہشت گردی کو گھٹا دے گی، کئی تشویشناک ہلاکتیں پیش آئیں۔ اس طرح کے ایک افسوسناک واقعہ میں مغربی بنگال کے پانچ تارک وطن مزدوروں کو جموں و کشمیر کے کلگام میں گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس سے قبل میوے کی تجارت کے معاملے میں لوگوں پر حملہ ہوا۔ ایک اور صدمہ انگیز اور تکلیف دہ واقعہ میں سرینگر کی ترکاری منڈی میں تاجروں کو نشانہ بناتے ہوئے گرینیڈ حملہ کیا گیا جس میں ایک شخص ہلاک اور پندرہ دیگر زخمی ہوئے۔
ایک طرف جموں و کشمیر کے عوام ہتک محسوس کررہے ہیں کیونکہ ان کی ریاست کو درجہ گھٹا کر مرکزی علاقہ بنا دیا گیا اور دوسری طرف شیخی بگھاری جارہی ہے کہ سردار پٹیل کا یہی خواب تھا! یہ جھوٹ کہ ہندوستان نے دہشت گردی کے پس پردہ ایک بڑی وجہ کو ختم کردیا، سچائی سے بالکلیہ بعید ہے۔ ایسا سمجھنا تاریخ کے حقائق کی نفی کرتا ہے اور ایسا ماحول تیار کرتاہے جو بی جے پی کی سیاست کیلئے موزوں ہو۔ کشمیر میں عسکریت پسندی کیوں ہے؟ اس معاملے کی شروعات پاکستان کے کشمیر پر حملہ سے ہوتی ہے، جو قبائلیوں نے کیا، جن کی حمایت پاکستان آرمی نے کی۔ چونکہ کشمیری عوام بعض فرقہ پرست عناصر کے پیش کردہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا شکار ہونا نہیں چاہتے تھے، چونکہ وہ سکیولر جمہوریت کے حق میں تھے، اس لئے انھوں نے پاکستانی جارحیت کو زائل کرنے کیلئے ہندوستانی حکومت سے درخواست کی۔ پھر پیچیدہ عمل سے گزرنا ہوا، جس کے نتیجے میں میثاقِ الحاق طے ہوا اور پھر ہندوستانی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے آرٹیکل 370 وجود میں آیا، جن کے بارے میں سنجیدہ مبصرین نے سیرحاصل تبصرے کئے ہیں۔ شیاما پرساد مکرجی جیسے اشخاص کی کوششیں کہ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جبراً ضم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے، ہندوستان میں فرقہ پرستانہ سیاست کے فروغ نے کشمیریوں بالخصوص شیخ عبداللہ کو افسردہ کردیا، جو کشمیر کے ہندوستان سے الحاق میں پیش پیش رہے تھے۔
مختصر یہ کہ شیخ عبداللہ کے اندیشوں پر جواب کے طور پر ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور یہیں سے کشمیر کے عوام میں بیگانگی کے بیج بوئے گئے۔ کشمیری عوام کی بیگانگی کی تائید کرنے میں پاکستان نے دیری نہیں کی اور یہی کشمیر میں دہشت گردی کا بنیادی سبب ہے۔ آرٹیکل 370 حفاظتی اقدام تھا جو ریاست جموں و کشمیر کو خودمختاری دیتے ہوئے دہشت گردی کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ تھا۔
بلاشبہ، عالمی صورتحال جہاں امریکہ نے روسی آرمی کے خلاف لڑائی کیلئے القاعدہ کے بیج بوئے، اس نے مسئلہ کو بڑھاوا دیا کیونکہ القاعدہ اور اس کی ہمنوا تنظیمیں روسی فوج کو مخالف سوویت فورسیس کے ساتھ اتحاد میں شکست دینے کے بعد گڑبڑزدہ ریاست میں گھس پڑے، اور عسکریت پسندی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ تیس سال گزر گئے اور اب تصویر کو معکوس انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔
ضرورت یہ تھی کہ ریاست میں جمہوری عنصر کو بڑھاوا دیا جاتا اور ناراض عناصر کو بات چیت کے عمل میں شامل کیا جاتا۔ بے شک، پاکستان کے منفی رول اور اس کو امریکہ کی بھرپور حمایت بڑا عنصر رہا ہے۔ مسائل تب ہی حل کئے جاسکتے ہیں جب مسئلہ کی درست تشخیص کی جائے۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے حالیہ تاریخ کا غلط فہم موجودہ سیاست کا رخ طے کررہا ہے اور اس لئے عسکریت پسندی کی ذمہ داری آرٹیکل 370 پر ڈالی جارہی ہے۔ آرٹیکل 370 کو کشمیر میں ترقی کے فقدان کیلئے بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ سماجی ترقی کے اشاریہ جات میں کشمیر کے اشاریہ جات کئی ریاستوں سے بہتر اور قومی اوسط شرحوں سے برتر ہیں۔ وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے، کینسر نوعیت کے القاعدہ عناصر سے ریاست میں کس طرح نمٹا جائے گا۔ اس مسئلہ ہمہ جہت عمل مذاکرات لازمی ہے۔ جمہوری عمل کو مضبوط کرنا ہی واحد راستہ معلوم ہوتا ہے کہ امن بحال ہوسکے اور تشدد پر قابو پایا جائے جو کشمیر کے عوام کو اذیت پہنچا رہا ہے۔
[email protected]
