کجریوال کا نرم ہندوتوا … کرنسی کو ہندو بنانے کا منصوبہ
تلنگانہ … ایم ایل ایز فار سیل
رشیدالدین
ہندوستان سیکولر اور جمہوری ملک باقی ہے یا پھر ہندو راشٹر میں تبدیل ہوچکا ہے؟ یہ سوال ذہن میں آنے کی اہم وجہ ملک میں مذہبی جنون اور مذہب کے نام پر سیاست کا عروج ہے۔ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کے 8 سالہ دور اقتدار میں ہندوستان دستور میں ترمیم کے بغیر ہی غیر معلنہ طور پر ہندو راشٹر میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ مذہبی جنون اور جارحانہ فرقہ پرستی کے اثر سے سیکولر قائدین بھی متاثر ہونے لگے ہیں۔ ہندو ووٹ بینک سے محرومی کے اندیشہ کے تحت سیکولر پارٹیاں اور ان کے قائدین نرم ہندوتوا اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ عرصہ میں کانگریس نے بھی نرم ہندوتوا کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھانے کا تجربہ کیا تھا۔ ہندوتوا اور مذہبی منافرت کا زہر سماج میں اس قدر تیزی سے پھیلایا گیا کہ سیکولر قائدین کو بھی اسے اپنائے بغیر نجات دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ سیکولر قائدین کی یہ قلا بازیاں تشویش کا باعث اس لئے بھی ہیں کہ مذہبی جنون کا غلبہ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے ۔ ہر ہندوستانی کے خمیر میں رواداری اور محبت کا جذبہ ہے لیکن ہندوتوا طاقتیں سیکولر ڈھانچہ کی دشمن بن چکی ہیں۔ نرم ہندوتوا کا تازہ مظاہرہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے کیا ۔ بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے مخالف ہندو ہونے کے الزامات سے گھبراکر کجریوال نے ایک چال چلی ہے۔ انہوں نے کرنسی نوٹ پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر شامل کرنے کی تجویز پیش کی ۔ اس تجویز کی تائید میں انہوں نے انڈونیشیا کی مثال پیش کی جو مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود کرنسی پر گنیش کی تصویر کو شامل کئے ہوئے ہے۔ کجریوال کے مطابق ڈالر کے مقابلہ روپئے کی قدر میں کمی کو روکنے کیلئے دیوی دیوتاؤں کا سہارا ضروری ہے۔ کجریوال کے نرم ہندوتوا کے مظاہرہ پر کانگریس پارٹی خاموش رہنے والی کہاں تھی۔ کانگریس نے کرنسی نوٹ پر اللہ اور عیسیٰ کا نام شامل کرنے کا طنز کرتے ہوئے اقلیتی کارڈ کھیلا۔ الغرض مذہبی سیاست کے مظاہرہ میں سیکولر جماعتوں میں مسابقت چل رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے آخر کار سیکولر طاقتوں کو بھگوا رنگ اختیار کرنے کیلئے مجبور کرتے ہوئے یہ پیام دیا ہے کہ ہندوتوا ایجنڈہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ملک میں رام ، لکشمن اور ہنومان کے نام پر سیاست برسوں سے جاری ہے۔ بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا نشانہ پر ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے نام پر سیاست عبادتگاہوں تک محدود تھی جسے کجریوال نے کرنسی نوٹ تک پہنچادیا ۔ کجریوال کی تجویز پر تبصرہ سے قبل ہم کہنا یہ چاہیں گے کہ جب مسلم اکثریتی ملک کی کرنسی پر گنیش ہے تو اس کی تقلید کرتے ہوئے ہندو اکثریتی ہندوستان کی کرنسی نوٹ پر مسلم نشانی کو جگہ دی جائے جو چھوٹے مذاہب اور ا قلیتوں کے احترام اور ملک میں جذبہ خیر سگالی کا ثبوت ہوگا ۔ انڈونیشیا کی مثال جب دی گئی تو پھر اس جذبہ پر عمل کر کے دکھائیں۔ کرنسی پر مسلم نام تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو فہرست رائے دہندگان میں مسلم نام برداشت نہیں ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت اور ووٹ کے حق کو نشانہ بنانے کی سازش ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں مسلمان عدم تحفظ کا شکار جس قدر گزشتہ 8 برسوں میں ہوئے ، اس کی مثال سابق میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اروند کجریوال نے گجرات اسمبلی انتخابات کیلئے نرم ہندوتوا کو اختیار کیا تاکہ بی جے پی کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جاسکے۔ مخالف ہندو امیج کو ختم کرنے کیلئے کرنسی نوٹ پر بھگوانوں کی تصاویر کا مطالبہ محض اتفاق ہی نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور اگر اس تجویز پر عمل کیا گیا تو سارا کریڈٹ کجریوال کو جائے گا ۔ کجریوال کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہندو ووٹ بینک کی سیاست اس قدر تیز ہے ، گجرات میں جو بی جے پی کا گڑھ ہے، وہاں ہندو ووٹ بینک میں پھوٹ پیدا کرنے کیلئے کجریوال نے ٹرمپ کارڈ پھینکا ہے۔ یہ بیان جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کیلئے ایک طنز کی طرح ہے جو سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے خود کو ہندوتوا کے ٹھیکیدار کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ کامیاب سیاستداں وہی ہیں جو زہر سے زہر کا خاتمہ کریں۔ دہلی کے بعد پنجاب کی کامیابی نے ملک میں بی جے پی کیلئے خطرات میں اضافہ کردیا ہے ۔ گجرات میں کجریوال کی بڑھتی مقبولیت سے بوکھلاکر بی جے پی نے عام آدمی پارٹی قائدین کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کو متحرک کردیا ہے لیکن کجریوال نے قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے مذہبی جنون سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر عارضی ، سیاسی فائدہ کیلئے نرم ہندوتوا کو ا ختیار کیا گیا تو یہ ہندوتوا طاقتوں کا شکار ہونے کے مترادف ہوگا۔ سیکولر امیج اور سیکولر اصولوں پر کسی سمجھوتہ کے بغیر فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد کی جائے ۔ موقع پرستانہ سیاست سے عوام کے دلوں میں سیکولر پارٹیوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔ ہندوتوا طاقتیں چاہتی ہے کہ ہر کوئی ان کے رنگ میں ڈھل جائے ۔ اگر اس طوفان کو روکنے کے بجائے خود شکار ہوجائیں تو یہ معاملہ کرنسی نوٹ سے آگے بڑھ کر آدھار اور ووٹر شناختی کارڈ تک پہنچ جائے گا۔ دستور کے اعتبار سے ملک میں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے لیکن ہر سرکاری تقر یب کا آغا ز ہندو مذہبی رسومات کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ سرکاری تقاریب کا یہ حال ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو مساجد میں عبادت سے روکا جارہا ہے ۔ سیکولر ہندوستان میں اذان پر پابندی کی باتیں ہورہی ہیں۔ مسلمانوں کو لباس ، غذا اور تہذیب کے معاملہ میں اختیارات سے محروم کیا گیا۔ کیا کھانا ہے اور کیا پینا اور پہننا ہے، اسے ہندوتوا طاقتیں طئے کریں گی۔ شرک کے راستہ سے اقتدار کے حصول اور اقتدار کو بچانے کی فکر ہے۔ یہی صورتحال رہی تو آنے والے دنوں میں حقیقی سیکولر پارٹیاں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گی۔
ایک دور وہ تھا جب عوامی نمائندے قابل احترام سمجھے جاتے تھے لیکن آج وہ فروخت ہونے والا سامان بن چکے ہیں۔ سیاست میں دوسروں کے ساتھ کیا گیا سلوک کسی نہ کسی دن واپس لوٹتا ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا کچھ یہی حال ہے ۔ ٹی آر ایس نے 2014 اور پھر 2018 ء میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان کو خریدتے ہوئے اپنی حکومت کو مستحکم کیا تھا ۔ آج بی جے پی اسی راستہ پر چلتے ہوئے ٹی آر ایس کے لئے پریشانی کا سامان کر رہی ہے۔ سیاست میں اصول پسندی باقی نہیں رہی ۔ پارلیمنٹ ،اسمبلی اور مجالس مقامی میں عوام اپنے نمائندوں کو اس لئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت ہوجائیں لیکن آج ملک بھر میں عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت سیاست کا لازمی جز بن چکی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ انحراف کے لئے عوامی نمائندوں کی بولیاں لگائی جارہی ہیں۔ ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے علحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد دنوں اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن کے بیشتر ارکان کو انحراف کیلئے مجبور کیا تھا۔ ٹی آر ایس کے چار ارکان اسمبلی کو مبینہ طور پر لالچ دیتے ہوئے انحراف پر اکسایا گیا لیکن لمحہ آخر میں پولیس کی مداخلت سے یہ منصوبہ ناکام ہوا۔آج تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بی جے پی نے یہ کوشش کی تھی یا پھر ٹی آر ایس ایس کا تیار کردہ اسٹیج شو ہے۔ جب پارٹی کی مخالفت میں چار ارکان اسمبلی انحراف کیلئے تیار ہوسکتے ہیں ، پتہ نہیں کہ ایسے کتنے بکاؤ مال پارٹی میں چھپے ہوئے ہیں جو موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔ انحراف اور عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت روکنے کیلئے سخت قانون ضروری ہے۔ جو شخص بھی انحراف کرے ، اس کے لئے دوبارہ الیکشن لڑنا لازمی قرار دیا جائے تاکہ انحراف کی منظوری عوام سے حاصل کی جاسکے۔ تشکیل تلنگانہ کے بعد کے سی آر نے حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے نہ صرف کانگریس بلکہ تلگو دیشم اور بائیں بازو جماعتوں کو غیر مستحکم کیا تھا۔ اصول پسندی کی دہائی دینے والے چندر شیکھر راؤ نے تلگو دیشم اور کانگریس سے انحراف کرنے والے ارکان کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے جمہوریت کو داغدار کیا تھا۔ بی جے پی تلنگانہ اور آندھراپردیش میں استحکام کے لئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ اگر چار ارکان اسمبلی کو انحراف کا لالچ دینے کا معاملہ حقیقت ہے تو پھر کے سی آر کو 2023 ء اسمبلی انتخابات تک کافی چوکس رہنا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن چار ارکان کو انحراف کی ترغیب دی گئی ، ان میں سے 3 کانگریس سے ٹی آر ایس میں منحرف ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ فروخت ہونے والے ارکان کیلئے بار بار فروخت ہونا کوئی عیب نہیں ہوتا۔ بی جے پی نے کرناٹک ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش اور گوا میں اپوزیشن حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بڑے پیمانہ پر انحراف کا سہارا لیا تھا۔ کوئی عجب نہیں کہ یہی تجربہ تلنگانہ میں بھی کامیاب ہوگا لیکن حکومت کے عدم استحکام کی حد تک ارکان کے انحراف کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سیاست میں حالات کی تبدیلی پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
صبحِ مغرور کو وہ شام بھی کرسکتا ہے
شہرتیں چھین کے گمنام بھی کرسکتا ہے