صبح دیر سے اٹھنا رزق کے دروازے بند کرنے کے برابر

   

اللہ کی عبادت زندگی میں غنا اور اطمینان کا سبب، شاہی مسجد باغ عام میں مولانا ڈاکٹر حافظ احسن بن محمد الحمومی کا خطاب
حیدرآباد، 26 جولائی ۔ (پریس نوٹ) مولانا ڈاکٹر حافظ احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عام نے کہا کہ خدا کے واسطے اپنے محلوں میں مسجدوں کی موجودگی کو بڑی نعمت سمجھئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان مساجد سے اذان کی آوازیں گونجنا بند ہوجائے اور نماز باجماعت ادا کرنا ایک سخت چیلنج بن جائے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کے وقت کا سونا رزق کو روکتا ہے۔ صبح کا سونا گویا ایسا ہے جیسے خود ہی اپنے لیے رزق کے دروازے بند کرلیے ہوں۔ صبح کے وقت اللہ نے خوب برکت رکھی ہے۔ اگر ہم اللہ کی عبادت نہیں کریں تو ہم مصیبت میں مبتلا ہوں گے ہی۔ اس کی وجہ کوئی جادو اور کرتوت نہیں بلکہ ہماری اپنی نحوست ہے، ہم اللہ کی عبادت نہ کرکے اور صبح سوئے رہ کر برکت کے دروازہ کو بند کردیتے ہیں۔ ایک طرف عالَم یہ ہے کہ میناروں کو شہید کیا جارہا ہے اور دوسری طرف مسجدیں گھروں سے قریب ہونے کے باوجود غفلت برتی جارہی ہے۔ اب تو ایسے سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں کہ مسجدوں کے میناروں سے دو کیلو میٹر تک اذان کی آوازیں آتی ہیں؛ لیکن مصلیان کی تعداد کم سے کم ہے، ایسے میں اس میک کی کیا ضرورت ہے؟ مسلم گنجان آبادیوں میں رات میں لوگ دیر تک جاگے رہتے ہیں اور نماز فجر میں مساجد خالی نظر آتی ہیں۔ انسان کی دنیا میں پیدائش کا بنیادی مقصد عبادتِ خداوندی ہے۔یہاں عبادت کا مفہوم صرف نماز، روزہ یا دیگر مروجہ عبادات نہیں، بلکہ پوری انسانی زندگی میں اس بات کا خیال کہ مَیں اللہ کا بندہ ہوں اور اسے راضی کرنا ہے، یہ عبادت کا وسیع مفہوم ہے۔ہم اسکول کے ٹیچر، ماں باپ، میاں بیوی، تاجر و ملازم اور بھائی بہن کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندے ہیں اور ہمیں اس پر قائم رہنا ہے۔ اللہ تعالی دنیا کی کسی مخلوق سے اپنی عبادت کا خواہشمند نہیں؛ بلکہ صرف انسان کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ رب کائنات کی عبادت کرے۔ والدین اپنی اولاد کو بچپن میںہی اللہ کاتعارف کرائیں، اللہ سے محبت کرنا سکھائیں۔ آج سماج میںجن باتوں کو ترجیح دی جارہی ہے، اس کی خاطر ہر کوئی قربانی دینے کے لیے تیار ہے مگر اللہ کی عبادات کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ جو نوجوان اور والدین اسکول کی حاضری کے لیے تو صبح اٹھنے تیار ہیں، جب کہ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے صرف چند ہی لوگ حاضر ہوتے ہیں اور افراد امت کی اکثریت سوئے ہوئے رہتی ہے۔