کابل: افغانستان پر اپنے اقتدار کی علامت کے طور پر طالبان نے امریکہ پر 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں کی بیسیویں برسی کے موقع پر کل کابل میں واقع افغان صدارتی محل پر اپنا پرچم لہرا دیا۔یہ پرچم کشائی طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے ایک سادہ تقریب میں کی۔ طالبان کے ثقافتی کمیشن کے سربراہ احمداللہ متقی نے میڈیا کو بتایا کہ پرچم کشائی کی اس تقریب کے ساتھ ہی نئی حکومت کے کام کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔صرف مردوں پر مشتمل طالبان کی عبوری حکومت میں شامل وزراء کے ناموں کا اعلان اسی ہفتے کیا گیا تھا۔ عالمی سطح پر طالبان کی اعلان کردہ عبوری کابینہ کی ہیئت پر مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا۔کئی ممالک کو توقع تھی کہ ماضی کے برعکس طالبان اس مرتبہ اعتدال پسندانہ رویہ اپنائیں گے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ایک ٹویٹ میں ملک میں امن و استحکام کا مطالبہ کیا اور توقع کی کہ کابل میں عبوری کابینہ، جس میں نہ خواتین شامل ہیں اور نہ ہی طالبان کے علاوہ کسی گروپ سے کوئی شخصیت، ایک ایسی حکومت بن سکے گی جو پورے افغانستان کی نمائندگی کرے۔
20 سال بعد طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آ چکے ہیں۔ امریکی فوجی دستے اس ملک سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب طالبان پچاس لاکھ کی آبادی والے شہر کابل میں اپنی حکمرانی کا مظاہرہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کل ہفتے کے روز طالبان کی طرف سے ایسی خواتین کے ایک مارچ کا اہتمام کیا گیا، جو ان کی حامی تھیں اور خود بھی مکمل برقعوں میں تھیں۔
ان خواتین کو کابل یونیورسٹی کے ایک ہال میں بٹھایا گیا اور طالبان کی جانب سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ مغرب نے گزشتہ 20برسوں میں ملکی خواتین کی خود مختاری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس تقریب میں خواتین مقررین کی جانب سے طالبان کے حق میں گفتگو کی گئی اور ان کی فتح کا جشن منایا گیا۔اس موقع پر اس یونیورسٹی ہال کے باہر موجود ہائر ایجوکشن کے لیے طالبان کے ڈائریکٹر محمد داؤد حقانی کا کہنا تھاکہ 9/11 وہ دن تھا، جب دنیا نے ہمارے خلاف پروپگنڈا کرنا شروع کیا اور ہمیں امریکہ پر حملوں کا ذمہ دار قرار دے کر دہشت گرد کہا گیا تھا۔