’’صدر بنتے ہی مسلمانوں کو اپنے انتظامیہ میں شامل کروں گا‘‘: جوبائیڈن

,

   

جلیل القدر عہدہ پر فائز ہونے کے بعدمسلمانوں پر سے پابندی ختم کردوں گا ،ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار

واشنگٹن ۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر وہ صدر بنے تو روزمرہ کے معاملات پر امریکی مسلمانوں کی تجاویز اور خدشات کو پیشِ نظر رکھیں گے اور مسلمان “آوازوں” کو اپنی انتظامیہ میں شامل کریں گے۔انھوں نے ان خیالات کا اظہار امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’’ایمگیج ایکشن‘‘ کی آن لائن تقریب ’’ملین مسلم ووٹس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی منتخب امریکی مسلمانوں نے تنظیم کے نام خط میں آئندہ صدارتی انتخاب میں جوبائیڈن کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں منی سوٹا کی رکن کانگریس الہان عمر، منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن اور انڈیانا کے رکن کانگریس آندرے کارسن شامل ہیں۔ جو بائیڈن نے کہا کہ صدر بننے کے بعد روزمرہ کے ان معاملات میں امریکی مسلمانوں کی تجاویز اور خدشات جاننے کی کوشش کروں گا، انہیں سنوں گا اور ان پر عمل کروں گا، جو ہماری کمیونیٹیز کیلئے اہم ہیں۔ ان میں مسلمان آوازوں کو اپنی انتظامیہ کا حصہ بنانا شامل ہوگا۔ اگر مجھے صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو میں پہلے ہی دن مسلمانوں پر پابندی ختم کردوں گا۔جوبائیڈن کا اشارہ اس پابندی کی طرف تھا جو ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر عائد کی ہے۔ جوبائیڈن نے کہا کہ ’’ہم سب کے بنیادی عقائد ایک جیسے ہیں اور مَیں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس سال نومبر کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ وہ کام کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ آپ نومبر میں 10 لاکھ مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے رجسٹر کررہے ہیں، یہ اہم ہے، آپ کی آواز آپ کا ووٹ ہے، آپ کا ووٹ آپ کی آواز ہے۔ امریکی مسلمانوں کی آوازیں اہمیت رکھتی ہیں‘‘۔ سینیٹر جوبائیڈن نے کہا کہ میں آپ کا ووٹ اس لیے نہیں مانگ رہا ہوں کہ ٹرمپ صدارت کے اہل نہیں ہیں۔ میں آپ کی شراکت میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ جب ہم قوم کی تعمیر نو کریں تو فیصلہ سازی میں آپ شامل ہوں۔ امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر اس سے پہلے برنی سینڈرز کی حمایت کررہی تھیں، لیکن اپریل میں ان کی صدارتی مہم ختم ہونے کے بعد وہ جوبائیڈن کی حمایت کررہی ہیں۔ سابق نائب صدر صدارتی انتخاب میں مسلم ووٹرس کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔کئی اہم ریاستوں میں مسلمان ووٹرس کی تعداد فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ 2016ء کے انتخاب میں صدر ٹرمپ کو مشی گن میں 11 ہزار سے کم ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ اس ریاست میں مسلمان ووٹرس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ صدر ٹرمپ کے انتظامیہ نے نہ صرف مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگائی بلکہ ایران کیساتھ جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہوگئی جس کی وجہ سے امریکی مسلمان رہنما اس پر تنقید کرتے رہے ہیں۔