صدر جمہوریہ کے خطاب کا بائیکاٹ کرنے 18 اپوزیشن پارٹیوں کا اعلان

,

   

مودی حکومت پر کسانوں کے مطالبات پر توجہ نہ دینے‘ احتجاجی تحریک کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کا الزام، زرعی قوانین واپس لینے کا مطالبہ

l پارلیمنٹ بجٹ سیشن کا آج سے آغاز l 29 جنوری سے 15 فروری تک پہلا سیشن
l یکم ؍ فروری کو بجٹ کی پیشکشی l 8 مارچ تا 8 اپریل دوسرا سیشن

نئی دہلی۔ مودی حکومت کے تین متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے اپوزیشن کے مطالبہ کے درمیان پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا کل بروز جمعہ سے آغاز ہوگا۔ یہ سیشن دو مرحلوں میں منعقد ہوگا۔ صدر جمہوریہ رامناتھ کووند پارلیمنٹ کے دونوں مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ پارلیمنٹ کا پہلا سیشن 29 جنوری سے شروع ہوگا اور 15 فروری کو ختم ہوگا جب کہ دوسرا سیشن 8 مارچ سے 8 اپریل تک چلے گا۔ مرکزی بجٹ 2021ء یکم فروری کو پیش کیا جائے گا۔ گزشتہ کی مرتبہ اس سیشن میں بھی کوویڈ۔19 پروٹوکول پر عمل کیا جائے گا۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے اجلاس پانچ گھنٹوں کے ہوں گے۔ راجیہ سبھا کا اجلاس صبح ہوگا اور پارلیمنٹ کا اجلاس شام میں منعقد کیا جائے گا۔ کورونا وباء کے باعث سرمائی سیشن منعقد نہیں ہوسکا تھا۔ اس سیشن میں بھی وقفۂ سوالات ہوں گے۔ کسان تحریک کے سلسلے میں چل رہے الزام در الزام کے درمیان کانگریس سمیت اہم اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد نے جمعرات کو یہاں صحافیوں کو بتایاکہ 18سیاسی پارٹیوں نے کل صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کرنے کا بیان کاری کیا ہے۔ اس کس اہم سبب گزشتہ سیشن میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں زراعت سے متعلق تین قوانین کو حکومت نے طاقت کے استعمال سے پاس کرانا ہے۔ کل صدر رام ناتھ کووند کے خطاب کے ساتھ ہی بجٹ اجلاس شروع ہورہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت نے تینوں زرعی قوانین کو من مانے طریقے سے نافذ کیا ہے جس سے ملک کی 60 فیصد آبادی پر روزی روٹی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے کروڑوں کسان اور کھیت مزدور براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ دلی کی سرحدوں پر کسان گزشتہ 64 رن سے دھرنا مظاہرہ کررہے ہیں اور 155سے ز یادہ کسان اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ اس بیان پر مسٹر آزاد کے علاوہ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری ، راجیہ سبھ میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے شرد پوار، نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، دراوڑ منیتر کژگم کے ٹی آر بالو، ترنمول کانگریس کے ڈیرک اوبرائن، شیو سینا کے سنجے راوت، سماجوادی پارتی کے رام گوپال یادو، راشٹریہ جنتاپارٹی کے منوج کمار جھا، مارکسی کمیونسٹ پارتی کے الاورم کریم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بنے وسوم، آئی یو ایم ایل کے پی کے کنجھالی کٹی، آر ایس پی کے این کے پریم چندر، پی ڈی پی کے نذیر احمد لاوے ، مروملارچی دراوڑ منیتر کژگم کے وائیکو، کیرلا کانگریس کے تھامس چاجیکدان اور آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے بدرو دین اجمل نے دستخط کئے ہیں۔ بیان میں اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت پر کسانوں کے مطالبات پر توجہ نہ دینے اور ان کی تحریک کے بارے میں گمراہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ کسانوں کو لاٹھی، پانی کی بوچھاروں اور آنسو گیس کے گولے سے جواب دے رہے ہیں۔ وزیراعظم اور حکومت پر مغرور ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں نے کہا کہ وہ اڑیل اور غیر جمہوری رویہ اختیار کررہی ہیں، اس لئے حکومت کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں اجتماعی طور پر کسانوں کے تئیں اتحاد ظاہر کرتی ہیں اور تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔