صدر جمہوریہ کے دعوت نامہ میں ’انڈیا‘ کے بجائے ’بھارت‘

,

   

اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ سے خوف، G-20 ممالک کے سربراہوں کو دعوت نامہ موضوع بحث

حیدرآباد ۔5 ۔ ستمبر (سیاست نیوز) اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’انڈیا‘‘ استحکام کے بعد اب اس نام سے مرکزی حکومت کو نفرت ہونے لگی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انڈیا اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے اس کو دہشت گرد تنظیموں کے ناموں سے مماثل قرار دیا۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے انڈیا کے نام کو تبدیل کرتے ہوئے ’’بھارت‘‘ کردینے کی تجویز پیش کی۔ ایس الگتا ہے آر ایس ایس کو خوش کرنے اور اپوزیشن کے اتحاد ’’انڈیا ‘‘ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے مرکزی حکومت نے بھی ملک کے نام ’’انڈیا‘’ کو بھارت میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اس کا اشارہ دہلی میں منعقدہ ہونے والے G-20 کانفرنس سے متعلق صدر جمہوریہ کے دعوت نامہ سے دیا گیا ہے ۔ تازہ طور پر راشٹراپتی بھون نے بھی G-20 میں ملک کے سربراہوں کو روانہ کردہ دعوت نامہ میں ’’پریسیڈنٹ آف انڈیا‘‘ کی جگہ (پریسیڈنٹ آف بھارت) تحریر کیا گیا ہے ۔ صدر جمہوریہ کا یہ دعوت نامہ سارے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ حکمراں اور اپوزیشن جماعتیں اس پر اپنا سخت ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ سال 2014 ء میں وزیراعظم بننے والے نریندر مودی ملک کی تاریخ میں اپنے وجود کا احساس دلانے اور ماضی کے ریکارڈس کو ختم کرتے ہوئے نئے باب کا آغاز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پہلے بڑی نوٹوں کو منسوخ کیا گیا ۔ جی ایس ٹی نافذ کیا گیا ۔ ڈیجیٹل انڈیا کو متعارف کردیا گیا ، اس کے علاوہ کئی متنازعہ فیصلے کئے گئے ۔ طلاق ثلاثہ ، آرٹیکل 370 کی منسوخی وغیرہ کے فیصلوں کو زبردستی عوام پر تھوپا گیا ۔ اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ملک کا نام انڈیا تبدیل کرتے ہوئے بھارت رکھا جائے گا ۔ واصح رہے کہ مرکزی حکومت نے 18 تا 22 ستمبر تک پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے ، جس میں ون نیشن ون الیکشن، یکساں سیول کوڈ ، خواتین کو تحفظات اور ملک کا نام تبدیل کرنے کا بل کے علاوہ دیگر بلز پیش کرنے کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ 9 اور 10 ستمبر کو دہلی میں G-20 کانفرنس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ اس عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے والے مختلف ممالک کے سربراہوں اور وزرائے اعظم کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 9 ستمبر کی شام عشائیہ کا اہتمام کیا ہے اور انہیں عشائیہ میں شرکت کرنے کیلئے جو دعوت نامہ روانہ کیا گیا ہے ۔ اس پر پریسیڈنٹ آف انڈیا کے بجائے پریسیڈنٹ آف بھارت تحریر کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ حکام نے اس عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے والے نمائندوں کو دینے کیلئے ایک کتابچہ تیار کیا گیا ہے جس پر بھی انڈیا دی مادر آف ڈیموکریسی کے بجائے بھارت دی مادر آف ڈیموکریسی تحریر کیا گیا ہے ۔ اس تبدیلی کا چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرما نے خیر مقدم کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا ہے ۔ بی جے پی قائدین اس تبدیلی کی جہاں تائید کر رہے ہیں وہیں کانگریس کے بشمول دیگر جماعتیں مخالفت کر رہے ہیں ۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ ملک کا احترام بڑھانے کی جانب یہ مثبت قدم ہے مگر کانگریس کا اعتراض ناقابل سمجھ ہے ۔ کانگریس سیاسی فائدے کیلئے بھارت جوڑو یاترا کرسکتی ہے ۔ بھارت ماتا کی جئے نعرے کو نفرت سے جوڑتی ہے ۔ 28 جماعتوں کا اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ وجود میں آنے کے بعد کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے آئندہ لوک سبھا انتخابات ’’انڈیا‘‘ اور ’’این ڈی اے‘‘ کے درمیان ہونے کا دعویٰ کیا۔ وزیراعظم اور انڈیا ۔ بی جے پی کے نظریات اور انڈیا کے درمیان مقابلہ ہونے کا اعلان کیا اور ہر معاملہ میں انڈیا کامیاب ہونے کی پیش قیاسی کی ہے جس کے بعد اپوزیشن کا اتحاد ’’انڈیا‘’ نام بی جے پی کو کھٹکنے لگا ہے اور اپوزیشن کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور ہندوتوا طاقتوں کو خوش کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے ۔ن

G-20 کے دعوت نامہ پر بھارت لکھنے پر کانگریس کو اعتراض
نئی دہلی: کانگریس نے صدر دروپدی مرمو کی طرف سے G-20 سربراہی اجلاس کے مہمانوں کو بھیجے گئے دعوت نامہ میں ‘انڈیا’ کے بجائے لفظ ‘بھارت’ کے استعمال کو اتحاد پارٹیوں سے جوڑتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے اسے مودی سرکار کا خوف قرار دیا ہے ۔کانگریس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے انچارج جے رام رمیش نے کہا کہ دعوت نامہ میں ریپبلک آف انڈیا کے بجائے ریپبلک آف بھارت کا استعمال کیا گیا ہے اور اس سے واضح ہے کہ مودی سرکار اپوزیشن کے اتحاد ‘انڈیا’ سے خوفزدہ ہے ۔اس لئے ’انڈیا‘کی جگہ ‘بھارت’لفظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ “صدر کی طرف سے G-20سربراہی اجلاس کیلئے مہمانوں کو بھیجے گئے دعوتی خط میں، ‘ریپبلک آف انڈیا’ کے بجائے ریپبلک آف ‘بھارت’ استعمال کیا گیا ہے ۔ انڈیا سے اتنا خوف۔ کیا یہ مودی حکومت کی اپوزیشن سے نفرت ہے یا ایک ڈرے سہمے تاناشاہ کی سنک۔