’صدی کا سودا‘ ۔ ایک ایسا منصوبہ جس سے کبھی امن حاصل نہیں ہوگا : ایران

   

صدی کا سودا خطہ کے معاشی جغرافیہ کیلئے بھی ایک چیلنج
اردن، ترکی، یمن، لبنان، عراق، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور ملائشیا کا منصوبے پر ناراضگی کااظہار

تہران ۔ 7 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مقبوضہ علاقوں کیلئے قیام امن منصوبہ کو آغاز سے ہی وسیع پیمانے پر ابہام کے علاوہ عالمی اور علاقائی مخالفت کی ایک لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹرمپ نے جواب امریکہ کے اندر سنگین چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر امریکی صدارت کا عہدہ پانے کی پوری کوشش کررہے ہیں ایک ایسا امن منصوبہ پیش کیا ہے جس سے اسرائیلی حکومت کو ہر طرح سے فائدہ پہنچے گا اور فلسطینیوں کو اس میں کوئی حق نہیں ملنے والا۔ اگرچہ جیریڈکشنر، امریکی صدر کے داماد اور مملکت کے سینئر مشیر نے پچھلے سال اس منصوبہ کے معاشی حصہ کی نقاب کشائی کی تھی اور اس کی سیاسی تفصیلات مستقبل کیلئے ملتوی کردی گئیں لیکن اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کی واشنگٹن میں موجودگی اور ٹرمپ کی طرف سے اس منصوبہ کا باضابطہ اعلان، اتنا یکطرفہ اور غیرحقیقت پسندانہ ہے کہ امریکہ کے اندر بھی اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ہورہا ہے۔ 80 صفحات پر مشتمل اس منصوبہ میں کہ جس میں ٹرمپ نے ’’دو ریاستوں‘‘ کے حل کو حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اسرائیلی سلامتی اولین ترجیح پر ہے اور فلسطینیوں پر زور دیا گیا ہیکہ وہ اس موقع سے محروم نہ ہوں۔ اس منصوبہ کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام حماس اور اسلامی جہاد تحریک کے خاتمہ پر مشروط ہے۔ ٹرمپ کے منصوبہ کے مطابق، فلسطین کی آئندہ ریاست پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہوگا۔ صیہونی حکومت فلسطینی فضائی حدود کو کنٹرول کرے گی اور زمین پر فلسطینیوں کو اسرائیلی سیکوریٹی فورسز کے زیرکنٹرول رکھا جائے گا۔ فلسطینی حکومت کو اسرائیل کی اجازت کے بغیر کسی بھی بین الاقوامی تنظیم میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نئی فلسطینی ریاست کوا سرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی تمام شکایات کو بین الاقوامی عدالت انصاف سے واپس لینا ہوگا اور مستقبل میں ان دو ممالک کے خلاف شکایت درج کرنا ممنوع ہوگا۔ فلسطینی حکومت کو کسی بھی اسرائیلی یا امریکی شہری کے خلاف عالمی پولیس یا غیر اسرائیلی اور غیر امریکی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اس منصوبہ کے تحت، فلسطینی ریاست صرف اسی صورت میں تشکیل دی جاسکتی ہے جب فلسطینی عوام امریکہ اور اسرائیل کے طئے کردہ تمام شرائط قبول کرلے گی۔ یہ کہنا ضروری ہیکہ ’’صدی کا سودا‘‘ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور تمام بین الاقوامی تنظیمیں اس کے بارے میں منفی خیال رکھتی ہیں اور اس کی مذمت کررہی ہیں۔ اس طرح کے منصوبہ کیلئے ٹرمپ کا دباؤ بین الاقوامی تعلقات میں منفی پیشرفت ہے اور اگر یہ رویہ قائم ہوجاتا ہے تو ہر دوسری طاقت اپنے آپ کو اس طرح کے اقدامات کرنے، حدود توڑنے اور بڑی آبادی کو اپنے مقاصد کے مطابق منتقل کرنے کی اجازت دیتی رہے گی۔ ’’صدی کا سودا‘‘ خطہ کے معاشی جغرافیہ کیلئے ایک سنگین چیلنج ہے۔ فلسطینی برادری بشمول مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی مہاجرین بھی اس منصوبہ کا سب سے پہلا شکار ہوں گے اور ان کی تقدیر غیریقینی صورتحال کا شکار ہوجائے گی۔ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں میں القدس شریف کے تقدس کے پیش نظر، صیہونی حکومت کے تحت اس شہر کو متفقہ یہودی شہر قرار دینے کا مطلب مسلمانوں اور عیسائیوں کو للکارنا ہے۔ امریکی صدر کے عوامی اعلان کے بعد سے اس منصوبہ کو کئی ممالک کے سربراہوں اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے منفی ردعمل کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ اردن، ترکی، یمن، لبنان، عراق، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، ملائشیا اور دیگر ممالک کے رہنماؤں اور عہدیداروں نے اس منصوبہ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ، جو ابتداء سے ہی مظلوم فلسطینی عوام کا حامی رہا ہے، اس موقع پر اس یکطرفہ، غیرمنطقی اور زبردستی ’’صدی کا سودا‘‘ پر سب سے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس بات پر زور دیا جانا چاہئے کہ فلسطین کی سرزمین فلسطینی عوام کی ہے۔ صیہونی حکومت ایک غاصب حکومت ہے اور فلسطین کے بحران کا واحد حل یہ ہوگا کہ فلسطین کے اصلی باشندوں کے مابین ریفرنڈم کرایا جائے اور اس طرح کے شیطانی منصوبے یا سودے ناکام ہوکر رہیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے مطابق فلسطینی بحران کے خاتمے کا واحد راستہ ایک ریفرنڈم کا انعقاد ہے جس میں تمام فلسطینی بشمول مسلمان، یہودی اور عیسائی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔