محمد مبشر الدین خرم
عالمی وباء کورونا نے دنیا کے گلوبل ویلیج کے تصور کو یکلخت ختم کردیا ہے اور دنیا بھر کے تمام ممالک اپنے شہریوں کو واپس لانے اور انہیں اپنے مقام پر محفوظ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دنیا نے برسوں کی کوشش کے بعد دنیا کو ایک دیہات میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی اور اس کوشش میں اس حد تک کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان مسابقت کا دور شروع ہوگیا تھا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے دقیانوسی خیال کے حامل لوگوں کی جانب سے اس مسابقت کے خلاف نسل پرستی کی ایک جنگ چھیڑ دی گئی تھی جسے دنیا کے ہر ملک اور سنجیدہ شہری نے مسترد کرتے ہوئے انسان کو اس کے حق کی فراہمی کے اقدامات کی بات کررہا تھا لیکن ڈسمبر 2019 کے بعد سے دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور ہر ملک کو اپنے باشندوںکو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور ان کوششوں کے درمیان ہندستان کی جانب سے سارک ممالک اور جی 20 کے اجلاس میں اختیار کردہ موقف کو کافی اہمیت حاصل ہوئی ہے اور کورونا سے نمٹنے میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنے کے حکومت ہند کے فیصلہ کو دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے کیونکہ ہندستان کے معاشی حالات تیزی سے ابتر ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت نے اس عالمی وباء سے نمٹنے کے لئے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف اپنے شہریوں کو حوصلہ دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں موجود ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے سبق حاصل کرتے ہوئے کورونا جیسے چیالنج سے نمٹنے کیلئے کمر کس لی ہے۔
عالمی سطح پر تیزی سے پھیل رہی اس وباء پر قابو پانے کیلئے لازمی ہے کہ فوری احتیاطی اقدامات کئے جائیں اور ان اقدامات کو سختی کے ساتھ نافذالعمل بنایا جائے اور حکومت ہند کی جانب سے تاخیر سے ہی سہی لیکن اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے اور انہیں سختی کے ساتھ نافذالعمل بنانے کے لئے کوششیں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کے نتائج کس حد تک مثبت برآمد ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ عوامی کوتاہی کے سبب یہ وباء رکنا ممکن نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کورنا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے اور دنیا میں جب تک کورونا کا ایک بھی مریض باقی رہے گادنیا ایک طرح سے مفلوج ہی رہے گی اور آمد و رفت کے ذرائع بند ہی رہنے کا خدشہ ہے کیونکہ کورونا کا ایک مریض کئی افرا د کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے اسی لئے عالمی سطح پر ان لوگوں کو حمل و نقل سے روکنے کے لئے لاکھ ڈاؤن کیا جا رہا ہے اور جو لوگ لاک ڈاؤن میں ہیں وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں تو کیوں ان پر لاک ڈاؤن مسلط کیا جارہا ہے۔ اٹلی نے جو کوتاہی کی ہے اس کوتاہی کا وہ خمیازہ بھگت رہا ہے اسی طر ح ایران نے بھی زائرین کو روکنے کے اقدامات نہیں کئے تھے جس کے سبب ایران کی حالت بھی بتدریج ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ خلیجی ممالک میں تیز رفتار حرکت میں آتے ہوئے اگر کسی مملکت نے اقدامات کئے ہیں تو وہ سعودی عرب اور قطر ہیں جنہوں نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کئی ایک اہم فیصلے کئے اور کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرلی۔عالم عرب میں کورونا کا اتنا قہر نہیں ہے جتنا یوروپ اور امریکہ میں دیکھا جا رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی خلیجی ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے مسئلہ کی نوعیت کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ تشہیر کے بجائے عملی اقدامات اختیار کررہے ہیں۔
ہندستان میں کوروناوائرس
ہندستان میں کوروناوائرس سے متاثرہ شخص کا پہلا معاملہ 30 جنوری کو سامنے آیا لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی بے اعتنائی نے صورتحال کو اس حد تک ابتر بنادیا کہ اب دنیا بھر کی نظریں ہندستان میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے اقدامات پر ٹکی ہوئی ہے کیونکہ ہندستان آبادی کے اعتبار سے کافی گنجان مملکت میں شمار کیا جا تا ہے اور اگر ہندستان میں یہ مرض وبائی صورتحال اختیار کرلے توحالات کافی سنگین ہوسکتے ہیں کیونکہ ہندستان ایک ترقی پذیر مملکت ہونے کے سبب ہندستان میں ایسی طبی سہولتیں موجود نہیں ہیں جس طرح کی طبی سہولیات امریکہ اور یوروپ و برطانیہ میں ہیں لیکن ان ممالک کی جانب سے اس وباء پر قابو پانے کیلئے کی جانے والی کوششیں ناکافی ثابت ہورہی ہیں کیونکہ ان ممالک نے اس وباء کوروکنے کے لئے جو احتیاطی اقدامات کئے تھے اس کے باوجود یہ وباء اس قدر تیزی سے پھیل چکی ہے اور اب جبکہ ہندستان میں یہ وباء تیزی سے پھیل رہی ہے تو اس وباء پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر اطمینان کے ساتھ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے تشویش کا بھی اظہار کیا جانے لگا ہے کیونکہ WHO وباء پر قابو پانے کیلئے ٹسٹ ‘ ٹسٹ اور ٹسٹ کی بات کررہا ہے اور ہندستان میں لوگوں کو لاک ڈاؤن کرتے ہوئے انہیںدوسروں سے رابطہ سے روکنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ان اقدامات کو کافی تصور کیا جانے لگا ہے جو کہ غلط ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کا ادعا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے تجربہ سے یہ فیصلہ کیا ہے۔اسی لئے حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ اگر عوام تعاون کرتے ہیں اور سماجی رابطہ ختم کرتے ہیں تو حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
کوروناوائرس اور مساجد
ہندستان میں حکومت کی جانب سے مذہبی اجتماعات پرعائد کی گئی پابندیو ںمیں مساجد میں بھی بڑے اجتماعات نہ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ جمعہ کے موقع پر گھروں میں نماز ادا کریں اور حکومت کی پابندی اور علماء کے فیصلہ کا عوام نے بصد احترام خیر مقدم کرتے ہوئے شکایت کا موقع نہیں دیا اور جمعہ کے لئے مساجد کو بغرض مقامات پر مقفل بھی کردیا گیا تاکہ عوام میں موجود شدت پسندعناصر پر قابو کیا جاسکے ۔ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے اس بات کی توثیق کے بعد کئی شرعی احکام ہم پرعائد ہوجاتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنا بھی باعث ثواب ہے اسی لئے علماء اکرام نے جو فتوی جاری کیا ہے اس میں عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں عبادتوں کو انجام دیں۔ مساجد میں یکجا ہونے اور اجتماع کے سبب کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات سامنے آنے کے بعد ہی یہ سخت گیر فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلہ نے امت مسلمہ کے دلوں کو چاک کردیا ہے لیکن وقت کی اس اہم ضرورت کے تحت ماہرین سے مشاورت کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر اگر عمل کیا جاتا ہے تو اس کا وبال ان پر ہی ہوگاجن لوگوں ہوگا جن لوگوں نے مساجد کو مقفل کیا ہے اور اس کی ہدایت دی ہے۔ وباء یا آفت کے دور میں اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو احتیاط کے امور بتائے گئے ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ سے تعلق کو مضبوط کیا جائے تو دین اور دنیا دونوں میں کامیابی ہوگی۔ بندگان خدا خالق حقیقی کو تنہائی میں راضی کرواسکتے ہیں اوراس کی کئی ایک مثالیں اور حکایات موجود ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے بزرگان دین نے تنہائی اختیار کی تھی اور اگر دور حاضر میں کوئی اہل دل تنہائی میںہی اپنے مالک حقیقی کو راضی کرواتے ہوئے اس مصیبت سے نجات کے لئے دعاء کرتا ہے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اللہ رب العزت اس کے تنہائی میں اٹھنے والے ہاتھ اور آنکھ سے بہنے والے آنسوؤں کی لاج ضرور رکھیں گے۔
کورونا وائرس کی وباء اورG20چوٹی کانفرنس
G20 کانفرنس جس کی میزبانی سعودی عرب کرنے والاتھا وہ بھی کورونا وائرس کے اثرات کا شکار ہوگئی اور کورونا وائرس کے سبب اس سمٹ میں تمام رکن ممالک نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ حصہ لیا اور اپنے اپنے ممالک میں کئے جانے والے اقدامات کے علاوہ عالمی سطح پر اس وباء کو روکنے کیلئے اقدامات کی حکمت عملی میں مکمل تعاون کی پیشکش کی ہے۔ G20 کے دوران توقع تھی کہ کئی ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کیلئے کئی معاہدے ہوں گے اور دنیا بھر کے ممالک میں جاری حالات بالخصوص ہندستان‘ پاکستان‘ تری اور شام کے حالات پرمذاکرات کئے جائیں گے لیکن دنیا میں پھیلی اس وباء نے سمٹ کے ایجنڈہ کو کورونا وائرس کی حد تک محدود کردیا اور دنیا نے اس سے نمٹنے کے اقدامات پرہی بات چیت کی ۔ اس سمٹ کے دوران وائرس پر کسی بھی سازشی نظریہ کے متعلق تبادلہ خیال نہیں کیاگیا لیکن اس کے معاشی اثرات کے متعلق تمام حکمرانوں نے اپنے تفکرات ظاہر کئے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر اس وباء پر جلد قابو نہ پایاجاسکا تو ایسی صورت میںدنیا کی معیشت تباہ ہوجائے گی اور اس میں سدھار لانے کیلئے25 برس کا عرصہ بھی کافی نہیں ہوگا۔G20 سے جو توقعات کی گئی تھی ان توقعات کے سلسلہ میں کہا جا رہاہے ا ب ان کا تذکرہ آئندہ دو برسوں کے دوران بھی ممکن نہیں ہے ۔اس سمٹ نے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کے مطابق دنیا کو 21ویں صدی کے معاشی چیالنجس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنی تھی لیکن دنیا اپنے منصوبوں کے مطابق نہیں چل سکتی اسی لئے اس سمٹ نے عالمی صحت کے چیالنجس سے نمٹنے پر اپنی گفتگو کو محدود کرنے پر مجبور ہوگئی اور دنیا کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے ممالک بھی اس وباء سے نمٹنے کے متعلق اپنے تفکرات ظاہرکئے بغیر نہیں رہ سکے بلکہ ہر کسی نے اس با ت کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے اپنے اور اپنے ملک کی عوام کے کرب سے دنیا کو واقف کروائے لیکن جب سب ہی مریض ہوں تو مداوا کون کرے!
کورونا وائرس اور حج
حج بیت اللہ کی اہمیت اور فرضیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اگر کورونا وائرس پرقابو پانے میں ناکامی ہوتی ہے تو نعوذ باللہ اس سال حج بیت اللہ کے فریضہ کی ادائیگی پربھی روک لگائی جاسکتی ہے !سعودی حکومت کی جانب سے بیرونی سفر پر عائد پابندی کے دوران اس بات کے بھی اشارے دئیے جارہے ہیں کہ حکومت سعودی عرب نے حج بیت اللہ کے سلسلہ میںکسی بھی فیصلہ کو قطعیت نہیںدی ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں کچھ بھی کہنا اور اقدام قبل از وقت قرار دیا جا رہاہے اور کہا جا رہاہے کہ حکومت کو جوانتظامات درکا ر ہوتے ہیں ان کی انجام دہی میں6ماہ کا وقت لگتا ہے اور اگرماہ رمضان المبارک کے اختتام تک دنیا بھر میں کوروناوائرس پر قابو پایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں حج بیت اللہ کی تیاریاں کی جاسکتی ہیںاور اگر ماہ رمضان المبارک کے بعدبھی کورونا وائرس کا قہر جاری رہتا ہے تو ایسی صورت میں تنسیخ حج کا بھی ناگزیر حالات میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ حج بیت اللہ کے لئے کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیاکے ہر ملک سے مسلمان پہنچتے ہیں۔وبائی امراض کے سلسلہ میں موجود احکام کی روشنی میں حکومت سعودی عرب کی جانب سے قطعی فیصلہ کئے جانے کے امکان ہے ‘ کہا جا رہاہے کہ ماہرین نے اس سلسلہ میں تجاویز حکومت سعودی عرب کو روانہ کرنے شروع کردیئے ہیں اور حکومت کی جانب سے شرعی و فقہی مسائل کا جائزہ لینے کی بھی ہدایات جاری کردی ہیں۔وزارت الحج سعودی عرب کے ذرائع کا کہناہے کہ حکومت سعودی عرب کوصرف اپنے شہریوں کی نہیں بلکہ دنیا بھر کے شہریوں کا خیال رکھنا ہے اور ورونا وائرس سے احتیاط کی اولین تدبیر سماجی فاصلہ اور دوری اختیار کرناہے۔اسی لئے حکومت کی جانب سے حج بیت اللہ کے سلسلہ میں کافی باریکی سے غور کرنے کے بعد ہی قطعی فیصلہ کیا جائے گا اور اگر دنیا بھر میں جاری بین الاقوامی مسافرین کے سفر پر عائدپابندی برقرار رہتی ہے تو ایسی صورت میںحج دنیا کے دیگرممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عملی طور پر منسوخ ہی تصور کیا جائے گا اور مقامی سعودی شہریوں کے لئے حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا جائے گا۔
امریکہ کے کوروناسے متاثر ہونے کی بنیادی وجہ
امریکہ کے ہربڑے شہر میںچائینا بازار اور چینی تاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے اور امریکہ میں چین میں تیار کی جانے والی معیاری اشیاء کی کافی طلب ہے۔امریکہ میںسب سے زیادہ متاثر ریاست نیویارک ہے اور اعداد و شمار کے مطابق چین سے روزانہ امریکہ کے شہر نیویارک پہنچنے والوں کی تعداد 966سے زیادہ ہے اور یومیہ اتنی بڑی تعداد کے وباء کے دوران پہنچتے رہنے کے سبب یہ اثرات اب نمایاں ہونے لگے ہیں کیونکہ کورونا وائرس کی علامات تاخیرسے ظاہر ہوتی ہیں اسی لئے حکومتوں کی جانب سے مشتبہ مریضوں کو الگ تھلگ رکھنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور الگ تھلگ رکھتے ہوئے کئے جانے والے علاج سے کافی بہتری پائی جا رہی ہے اور دنیا بھر میں 80.9 فیصد مریضوں کو اسی طرح سے ٹھیک کیا گیا ہے اور اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو لو گ متاثرہ پائے جا رہے ہیں انہیں قرنطینہ میں رکھتے ہوئے ان کے نظام قوت مدافعت کو مستحکم کیا جارہا ہے۔امریکہ کے چین سے خراب ہوتے تجارتی تعلقات کے باوجود بھی نیو یارک اور شنگھائی کے درمیان سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ چین امریکہ کی ضرورت بن چکا تھا اور آج امریکہ کوروناوائرس کے ذریعہ اس ضرورت کی قیمت چکا رہا ہے کیونکہ امریکہ صنعتی میدان میں چین سے کافی پیچھے ہے اور امریکہ میں شہریوں کو دستیاب صنعتوں میں تیار کی جانے والی ہر دوسری چیز چین سے آتی ہے۔اسی لئے چین اور امریکہ کے درمیان موجودپروازوں میں ہمیشہ اژدھام ریکارڈکیا جاتا ہے اوراب توایپل جو کہ امریکی کمپنی ہے اس نے بھی اپنے موبائیل اور دیگر پراڈکٹس کے پرزوں کی تیاری چین میں کرنی شروع کردی تھی ۔اسی لئے امریکہ اس وائرس سے بری طرح سے متاثر ہوتا جا رہاہے اور حکومت کی جانب سے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کئی کوششیں کی جا رہی ہیںلیکن ان میں اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ چین کی جانب سے اب یہ دعوی کیاجانے لگا ہے کہ چین کورونا وائرس کی وباء سے محفوظ ہوچکا ہے اور اس کے پاس اس وائرس کا علاج موجود ہے لیکن امریکہ اس صورتحال سے باہر نکلنے کے بجائے چین سے مسابقت اور مقابلہ آرائی کے نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش میںمصروف ہے ۔امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میںکورونا وائرس کے مصدقہ مریض پائے جا چکے ہیں اور چین نے اس مرض پر قابو پانے کا اعلان کردیا ہے اور اب امریکہ بھی چین کے اقدامات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے تجارتی حریف کی مدد حاصل کرنے تیار ہوچکا ہے۔
عالمی مسائل کوروناکی نذر
دنیا بھر کے اپنے اپنے مسائل کے درمیان دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کرتے تھے لیکن اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں دہشت گرد اور تمام ممالک کے حکمراں سب ہی کورونا کو اپنا دشمن تصور کرنے لگے ہیں ۔ISISنے کورونا کی دہشت کا اظہا رکیا اور کاروائیوں کوروکنے کی ہدایات جاری کی لیکن اس کے باوجود حالیہ دنوں میںدو دہشت گردانہ حملوں کے واقعات رونما ہوئے لیکن ان کا کہیں کوئی چرچانہیں ہوا بلکہ ان حملوں میں ہونے والی کئی لوگوں کی اموات کابھی تذکرہ نہیں کیا گیا توہندستان کے ایک مؤخر روزنامہ میں کورونا کوپٹھانی سوٹ پہناتے ہوئے اسے دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دنیا اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ کورونا کسی مذہب ‘ ذات پات کو دیکھ کر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر اس شخص پرحملہ آوری ہونے کے لئے تیار ہے جو متاثرہ شخص کے ساتھ خلوص سے ملتا ہے۔کورونا وائرس نے دنیا کے نظریہ کوتبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود بعض شرپسند عناصر کورونا میں بھی مذہب‘ رنگ و نسل کے علاوہ قومیت تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیںامریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو چائینا وائرس قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہندستان میں بعض لوگ اس وائرس کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیںاور مساجد میں ہونے والے ہجوم کے علاوہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیو ںکو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ان حالات میں مسلمانو ںکی جانب سے جو مصلحت اور حکمت اختیار کی گئی ہے وہ ابل ستائش ہے لیکن اس کے ساتھ مسلمان ’’پاکی آدھا ایمان ہے‘‘ کے ساتھ حلال اور حرام غذاؤں کی تشہیر کرسکتے ہیں اور اس کے لئے سماجی دوری کے ساتھ سماجی رابطہ کے پلیٹ فارم کا استعمال بھی ممکن ہے۔بعض خر دماغ گروہ اس مرض کو مذاق کا موضوع بناتے ہوئے بحث و مباحث کر رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اس مرض سے کوئی بڑی آفت نہیں آئے گی بلکہ یہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے اسی لئے اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
احتیاطی تدابیر‘ خاندانی مصروفیات‘گھریلو تعلقات
عالمی ادارۂ صحت نے کورونا وائرس سے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی ہیںان میں گھر میں رہنے اور صفائی کا خصوصی خیال رکھنے کی ہدایت شامل ہے اور دن بھر میں متعدد مرتبہ ہاتھ دھونے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔گھروں میں مسلسل بند رہنا فطرت انسانی کے خلاف ہے اسی لئے جب اسے مسلسل گھر میں بیٹھنا پڑتا ہے تو وہ چڑچڑاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے کئی منفی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں اسی لئے اب جبکہ گھر میں رہنا مجبوری ہے تو گھر کو سمجھنے اور دن بھرگھر میں رہتے ہوئے آپ کے گھر کوگھر بنانے والی خواتین کو سمجھنے کی ضرورت ہے اسی طرح خواتین کو بھی اس بات کو محسوس کرنا چاہئے کہ جب مرد باہر ہوتے ہیں تو وہ کن حالات کا سامنا کرتے ہیں اور گھر کوگھر بنائے رکھنے کی کس طرح سے جدوجہد کرتے ہیں۔ عام دنو ںمیں میں مسلسل گھر میں رہنے والوں کو نکما ‘ نااہل اور کندۂ ناتراش کہا جاتا تھا لیکن اب جبکہ کورونا کاخوف طاری ہے تو جو گھر میں رہتا ہے اسے سمجھ دار‘قابل اور سرکاری احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ صحت کے متعلق احتیاط کرنے والا کہا جا رہاہے۔ہندستان بالخصوص حیدرآباد میں نظام خاندان کو بہتر بنانے اور مصروفیات کو ایک راہ دینے کے لئے یہ صحیح وقت ہے اور اگر اس لاک ڈاؤن کادرست استعمال کرتے ہوئے لوگ اپنی مصروفیات کو ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں اور سونے اور جاگنے کے اوقات میں تبدیلی لانے کے ساتھ گھریلو کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کا عمل شروع کرتے ہیںتوجو حالات لاک ڈاؤن کے دوران چین میں پیدا ہوئے ہیں ان سے بچا جاسکتا ہے اور مستقبل کی زندگی کوبہتربنایا جاسکتا ہے۔چین میں لاک ڈاؤن کے دوران طلاق کی شرح میں اضافہ ریکارڈکیا گیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو سمجھے بغیر ہی زندگی گذار رہے تھے ۔دنیا کے کئی ممالک کی حکومتوں نے کورونا سے نمٹنے کے معاملہ میں چین سے سبق حاصل کیا ہے اور اس میں کچھ حدتک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ‘ حکومتوں نے اپنی ضرورت کے مطابق چین سبق حاصل کیا ہے اوراب عوام کوبھی چاہئے کہ وہ چین کے عوام سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس لاک ڈاؤن کے دوران زندگی کوبہتر بنانے کی کوشش کرے اور اپنے اوراپنے افراد خاندان کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے گھروں میں مشترکہ سرگرمیوں کو فروغ دیں اور اجتماعی عبادات کا گھروں میں اہتمام کرتے ہوئے نئی نسلوںکو مذہبی امور سے واقف کروانے کے ساتھ ساتھ کورونا کی احتیاط اور اسلام میں صفائی کی تلقین کی تعلیم دیتے رہیں۔
@infomubashir