محمد مصطفی علی سروری
اکتوبرکی 25 تاریخ تھی۔ جمعہ کا دن تھا۔ دوپہر کے سوا چار بجے تھے۔ سجیت ولسن نام کا دو سالہ لڑکا اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کھیلنے کے دوران دوڑتے ہوئے ولسن اچانک ایک گڑھے میں گر گیا۔ دوست بھی کم عمر تھے۔ چیخنے اور پکارنے لگے۔ آوازیں سن کر ولسن کے گھر والے بھی باہر نکلے اور دیکھے تو پتہ چلا کہ ولسن گھر کے پاس کھیت میں واقع بورویل کے سوراخ میں گر گیا۔ تاملناڈو کے علاقے تریچی میں جب گائوں کو معلوم ہوا تو سب دوڑے دوڑے چلے آئے اور ولسن کو بورویل کے گڑھے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ گڑھے میں جھانکنے پر ولسن کا سر اور دونوں ہاتھ دکھائی دے رہے تھے اور وہ مسلسل رو رہا تھا۔ تریچی کے ڈسٹرکٹ کلکٹر کے حوالے سے اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے 28؍ اکتوبر کو شائع شدہ رپورٹ میں لکھا کہ ولسن جب بورویل میں گرا تھا وہ 5 فٹ کی گہرائی میں پھنسا ہوا تھا۔ گائوں والوں نے امدادی ٹیم کو پانچ بجکر پینتالیس منٹ پر فون کیا لیکن اس دوران گاؤں والوں نے ولسن کو بچانے کی جو کوشش کی اس میں کامیابی تو نہیں ملی مگر ولسن 5 فٹ کی گہرائی سے مزید نیچے 18 فیٹ کی گہرائی تک چلا گیا۔ سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے انڈین ایکسپریس کے نمائندے جئے کمار نے لکھا کہ امدادی ٹیموں کو طلب کرنے میں تاخیر ہی اصل ولسن کو زندہ باہر نکالنے میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ولسن کو بورویل کے گڑھے سے باہر نکالنے سرکاری امدادی ٹیموں نے بڑے پیمانے پر کام شروع کیا۔ ولسن کے مانباپ کو مائک دیا گیا کہ وہ اپنے بچے سے کچھ نہ کچھ بات کر کے اس کو رونے سے روکیں۔ بورویل کے گڑھے میں آکسیجن کم نہ ہو اس کے لیے آکسیجن کے سلنڈر بھی استعمال کیے گئے۔ سارے علاقے کو گھیر کر وہاں پر متبادل بور کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ بورویل کے گڑھے میں ویڈیو کیمرہ ڈالکر ولسن کو دیکھنے کی کوشش بھی جاری رہی۔ بارش کے پانی کو بورویل میں جانے سے روکنے کے لیے عارضی شیڈ بھی بنایا گیا۔ ایل اینڈ ٹی کمپنی سے بھاری مشینوں کو حاصل کیا گیا۔ متوازی بورویل کھودنے اور ولسن جس بورویل میں گر گیا تھا وہاں سے کیچڑ اور مٹی کو نکالنے کے لیے جو کہ ولسن کے اوپر گرتی جارہی تھی۔ مشینیں لگائی گئی۔ جمعہ 26؍ اکتوبر سے شروع ہونے والا ولسن کو بچانے کا امدادی کام مسلسل 80 گھنٹوں تک چلتا رہا اور پھر 29؍ اکتوبر کی صبح 2:15 بجے تاملناڈو کے سرکاری عہدیداروں نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ولسن سجیت زندہ نہیںہے۔ امدادی ٹیم سجیت تک پہنچی مگر اس کو زندہ باہر نہیں نکال سکی اور سجیت کی نعش کے جو بھی باقیات ملے ان کو باہر نکالا گیا اور 29؍ اکتوبر کے دن سجیت ولسن کی عیسائی مذہب کے مطابق آخری رسومات ادا کردی گئیں۔
قارئین 2 سالہ معصوم سجیت ولسن کی جان چلی گئی اور اس دردناک واقعہ کے حوالے سے قلم اٹھانے کا مقصد قارئین کی توجہ ایک اہم نکتہ کی جانب مبذول کروانا ہے کہ سجیت ولسن کو زندہ بچایا جاسکتا تھا بشرطیکہ اس حادثہ کی اطلاع فوری طور پر امدادی اداروں اور حکومت کی ایجنسیوں کو دی جاتی۔اخبار ’’دی نیو انڈین ایکسپریس‘‘ نے 28؍ اکتوبر کو اپنی ایک سرخی جلی حروف میں لکھا کہ “Neighbours’ effort cost valuable time”۔ ولسن کے پڑوسی اس کو بچانا ہی چاہتے تھے۔ بچے کی محبت میں ان کے خلوص پر بالکل بھی شک نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن صرف محبت رکھنے اور کرنے سے کسی کی جان بچانے کا فن نہیں آتا۔ ہنگامی حالات اور ناگہانی واقعات میں صرف وہی لوگ کامیابی حاصل کرپاتے ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر تربیت حاصل کی ہو۔ جس وقت ولسن کے پڑوسی اس کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے وہ صرف 5 فیٹ کی گہرائی پر ہی پھنسا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ مزید اندر جاتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی نعش جب بورویل سے باہر نکالی گئی تو وہ تقریباً100 فٹ کی گہرائی تک چلا گیا تھا۔ اگر سرکاری امدادی کارکن جلد طلب کرلیے جاتے تو ان کے لیے 5 فٹ سے ولسن کو باہر وہ بھی زندہ نکالنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
ویسے زندگی اور موت تو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ ہے۔ تبھی تو امرت کجور (28) دنوں تک سمندر میں گذارنے کے بعد بھی صحیح سلامت ساحل تک پہنچ گیا۔ اخبار ’’نیو انڈین ایکسپریس‘‘ میں شائع شدہ 26؍ اکتوبر کی خبر کے مطابق امرت کجور اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کشتی پر انڈومان کے اطراف جزائر پر اشیائے ضروریہ کا سامان بیچا کرتا تھا۔ امرت کجور اپنے ساتھی کے ساتھ 28 اگست کو کشتی پر 5 لاکھ کا سامان لیے سمندر میں نکلتا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں ان لوگوں کی کشتی ایک سمندری طوفان میں پھنس جاتی ہے۔ بچائو کی ایک ہی صورت تھی کہ کشتی پر لدا سامان سمندر میں پھینک دیا جائے تاکہ کشتی کا وزن کم ہو اور وہ بحفاظت طوفان سے نکل سکیں۔ مرتے کیا نہ کرتے، ان لوگوں نے اپنا سامان سمندر میں پھینک دیا مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔ سمندری تھپیڑوں نے ان کی کشتی کو مینمار تک بہالے گیا۔ مینمار بحریہ نے ان لوگوں کی مصیبت کو جان کر ان کی کشتی میں 260 لیٹر فیول بھرنے کی مدد کی۔ امرت کجور اور ان کے ساتھی واپس اپنے مقام جانے کیلئے سمندر میں نکل پڑے۔ راستے میں ایک اور طوفان ان کا منتظر تھا۔ اس طوفان میں پھنسنے کے بعد ان کی کشتی نے اپنا سارا فیول ختم کردیا۔ اب یہ لوگ طوفان سے تو باہر نکل آئے مگر کشتی صرف ہوا کے دوش پر ہی چل رہی تھی اور کدھر جارہی تھی نہیں معلوم ہوا۔ کشتی میںنہ تو کچھ کھانے کا سامان تھا اور نہ پینے کا پانی۔ بہت پیاس لگتی تو سمندر کے پانی سے اپنے ہونٹوں کو تر کرلیتے۔ امرت کجور کا ساتھی کشتی پر ہی زندگی کی بازی ہار گیا۔ اب سمندر میں کشتی اور اس کشتی پر ایک نعش تھی اور ایک شخص اپنی زندگی کے لیے خدا سے مدد مانگ رہا تھا۔ ایسے ہی دو دن گزر گئے۔ اب کشتی میں مرنے والی نعش کی بدبو پھیلنے لگی تھی اور نعش تیزی سے خراب ہوتی ہوئی دیکھ کر امرت کجور نے ساتھی کی نعش سمندر میں بہادی اور اب اپنی زندگی کے خواب دیکھنے لگا۔ 28 دن گزر گئے۔ خدائے تعالیٰ کو امرت کجور کی موت منظور نہ تھی۔ وہ سمندر میں ہوا کے دوش پر چلنے والی کشتی پر ہی بہتا رہا اور پھر امرت کجور کی کشتی اڑیسہ کے ساحل سے خود ہی آٹکرائی۔ اڑیسہ کے کرشاہی گائوں والوں نے اس کشتی کو ساحل تک کھینچ لایا اور پولیس کو اطلاع دی۔ اخبار کی اطلاع کے مطابق امرت کجور کی کہانی سن کر ہر کوئی حیران ہے کہ سمندری طوفان میں کشتی کا سامان اور اپنے ساتھی کی موت کے باوجود آخر یہ شخص بغیر کھائے اور سمندر کا پانی پی کر کیسے زندہ رہا؟ اخبار ’’نیو انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق امرت کجور نے بتلایا کہ وہ خدا کی مہربانی ہی تھی کہ وہ زندہ بچ پایا۔
واقعی وہ خدائے تعالیٰ کی ہی ذات بابرکات ہے جسے چاہتی ہے زندہ رکھتی ہے اور جسے چاہے موت دیتی ہے۔ بظاہر بہت سارے لوگ، امدادی ٹیمیں، بھاری آلات، بڑی بڑی مشینیں اور آکسیجن کے سلنڈرس 80 گھنٹوں کی کوشش کے بعد بھی ایک معصوم کی جان نہیں بچاسکے۔ اور دوسری طرف سمندر کا طوفان، کشتی کا فیول ختم ہوجانا، کھانے کا سامان نہیں، پینے کا پانی نہیں۔ اپنی ہی آنکھوں کے سامنے اپنے ساتھی کا دم توڑدینا اور بظاہر ہوا کے رحم اور پانی کی لہروں پر چلنے والی کشتی جس کو بچانے کے لیے کوئی نہیں، 28 دنوں کے بعد ساحل سے آٹکراتی ہے اور کشتی پر موجود شخص زندہ، صحیح سلامت ساحل تک آجاتا ہے۔
قارئین، حالانکہ آج کے کالم میں دو الگ الگ خبریں زیر بحث رہی لیکن اصل موضوع خدائے پاک رحمن و رحیم کی ذات ہے۔ جو ساری کائنات کا مالک و مختار ہے اور ہم بندے بہت بڑی غلطی کرتے ہیں جب اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتے ہیں تو اس ذات سے ہمیں توبہ مانگنی چاہیے اور اپنے آپ کو دوبارہ اسی سے رجوع کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر چلادے، ان لوگوں کے راستے پر چلاجن پر اس نے انعام کیا اور شیاطین و ہر طرح کی بلائوں سے ہم سب کی حفاظت فرما اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما۔ جب تک ہم سب کے جسم میں جان ہے دین اسلام پر استقامت نصیب فرما۔ (آمین، یارب العالمین)
بقول امجدؔ حیدرآبادی
اس نام کی زندگی میں کچھ جان تو ہو
گربن نہ سکے فرشتہ ، انسان تو ہو
نیکی نہ ہوئی، نہ ہو، بدی بھی نہ کر
صوفی نہ ہوا، نہ ہو، مسلمان تو ہو
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]
