رام پنیانی
رام پنیانی نے اسرائیل۔ فلسطین تنازع اور 19 ویں صدی کے اواخر سے صیہونی تحریک کے اُبھرنے اور اس کے زور پکڑنے کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے ، ان کا مشاہدہ بھی بہت وسیع ہے۔ یہودیوں کو تاریخ کے مختلف مراحل میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی شرارتوں، شرپسندی کے باعث ہی انہیں مختلف ملکوں اور خطوں میں بیدخل کیا گیا۔ 20 ویں صدی کے دوران جرمن کے ایڈولف ہٹلر کے ظلم و ستم کا یہودیوں کو سامنا کرنا پڑا۔ ہٹلر پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا، ان کا قتل عام کیا اور پھر جرمنی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے یہودی دوسرے یوروپی ملکوں میں آباد ہوگئے ( یہودیوں کی شرارتیں ختم نہیں ہوئیں ان لوگوں کی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے یوروپی ممالک بھی پریشان ہوگئے اور وہ یہودیوں کو اپنے لئے ایک بڑی مصیبت تصور کرنے لگے نتیجہ میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ مصیبت فلسطینیوں اور عربوں کے گلے میں ڈال دی گئی ) 30 کے دہے کے دوران یہودیوں نے بڑی سنجیدگی سے فلسطین ( ارض فلسطین ) پر اپنے متوقع ملک کے طور پر ساری توجہ مرکوز کرنی شروع کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک ناپاک منصوبہ کے تحت فلسطین میں زمینات خریدنا شروع کردی۔
اگرچہ امریکہ اور برطانیہ کو ان سے ہمدردی تھی لیکن وہ یہودیوں کی فطرت اور شرارتوں سے اچھی طرح واقف تھے اس لئے وہ انہیں کسی بھی طرح اپنے اپنے ملکوں میں پناہ دینا نہیں چاہتے تھے، وہ یہودیوں کی شرارت سے متعلق تاریخ سے اچھی طرح واقف تھے اور انہیں خوف تھا کہ اگر ان لوگوں کو امریکہ یا برطانیہ میں بسایا جائے گا تو پھر وہ اپنی شرارتوں سے ان ملکوں کا ماحول بھی خراب کردیں گے اسی لئے امریکہ اور برطانیہ نے یہودیوں کو ارض فلسطین منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کے تحت یہودیوں کیلئے فلسطین میں ایک علیحدہ ملک کی پرزور تائید وحمایت کی اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح چالاکی ، مکاری اور ناپاک سازشوں کے تحت 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور کیسے ارض فلسطین کا 55 فیصد حصہ یہودیوں کو دے دیا گیا اور فلسطینیوں کو صرف 45 فیصد زمین قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ کم از کم 14 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آباء و اجداد کے گھر چھوڑ کر جانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ فلسطینیوں پر اس قدر ظلم و زیادتی، ان کا حق چھیننے اور انہیں ان کی ہی سرزمین سے بیدخل کرنے کے باوجود اسرائیلیوں کے لالچ کی کوئی حد نظر نہیں آئی۔ وہ تو پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے، وہ یہی چاہتے تھے کہ سارے فلسطین پر قبضہ کریں اور اس کے جو حقیقی باشندے (فلسطینی ) ہیں انہیں نکال باہر کریں۔
صیہونی تحریک نے دیکھتے ہی دیکھتے بحیرہ روم سے دریائے فرات تک ایک عظیم تر اسرائیل GREATER ISRAEL کا منصوبہ پیش کیا اور اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے درندگی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اپنے مقصد کو بڑی بے رحمی سے آگے بڑھایا، اس کے لئے اسرائیل نے فلسطین میں دہشت پھیلانا شروع کی اور اس معاملہ میں برطانیہ کا کردار بدترین رہا اس نے اسرائیل کے توسیع پسند منصوبوں کی بھرپور مدد کی اور پھر اسرائیل نے برطانیہ کی مدد سے بتدریج فلسطین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور ناجائز قبضے کئے، اس کیلئے اس نے فلسطینیوں کو خود ان کی اپنی ارض مقدس سے نکال دیا۔ عربوں نے اسرائیل کے توسیع پسند منصوبوں کے خلاف مزاحمت کی لیکن برطانیہ نے عربوں کی مزاحمتوں کو کچل ڈالا۔ 1967 میں اسرائیل۔ عرب جنگ پھوٹ پڑی جس میں عربوں کو شکست ہوئی نتیجہ میں اسرائیل نے مغربی کنارہ پر قبضہ کرلیا۔ اسرائیل نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس نے غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو جنوب اور مغرب کی جانب ڈھکیلنا شروع کیا۔ اس طرح اس نے فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ اراضی کو ہضم کرلیا اور اس پر ناجائز قبضے کرلئے اس طرح غزہ کو ایک 45 کلو میٹر طویل پٹی تک محدود کردیا جس کا طول تو 45 کلو میٹر ہے اور ارض یا چوڑائی 6 تا12 کلو میٹر ہے اوراس قدر چھوٹے اور تنگ حصہ میں 2.3 ملین لوگ رہتے ہیں اور یہ لوگ بڑی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی اجازت کے بناء غزہ سے باہر جاسکتے ہیں اور نہ ہی مغربی کنارہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ اسرائیل کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے 70 فیصد لوگ بیروزگار ہیں ان کے پاس کوئی ملازمت نہیں ، کوئی کام نہیں ہے یہاں تک کہ غزہ کے لوگوں کو ایک ایر پورٹ تک نصیب نہیں ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو غزہ کے یہ 23 لاکھ لوگ عملاً ایک کھلی جیل میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگوٹیرس نے سچ کہا ہے کہ غزہ کے لوگ 56 برسوں سے اسرائیل کا قبضہ برداشت کررہے ہیں ان کا دَم اس قبضے سے گھٹنے لگا ہے۔ بہر حال اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور توسیعپسند منصوبوں کے باعث 70 کے دہے میں فلسطینیوں نے غزہ میں مزاحمتی تحریک شروع کی۔ لیلی خالد اس مزاحمتی تحریک کی ایک اہم شخصیت تھیں۔ یاسر عرفات بھی ایک قابل احترام شخصیت تھے جو میانہ روی کے قائل تھے انہوں نے جو مزاحمتی گروپ قائم کیا تھا اسے ’ فتح ‘ کا نام دیا گیا اور فتح فلسطینیوں میں بہت زیادہ مقبول تھا لیکن اسرائیل ’ فتح ‘کی مقبولیت کو برداشت نہ کرسکا اور فلسطینیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے منصوبہ کے تحت اس کے جواب میں ’حماس‘ کی شکل میں ایک اور مزاحمتی گروپ بنانے کا موقع فراہم کیا اور حماس نے غزہ پٹی میں عوامی مقبولیت حاصل کی اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2006 سے غزہ میں حماس کا کنٹرول ہے اس نے وہاں ہوئے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تاہم اسرائیل نے دو مملکتی حل قبول کرنے سے انکار کردیا جسے قبول کرنے حماس بالکل تیار ہے ( حماس دو مملکتی حل کے تحت ایسے فلسطین کا مطالبہ کررہا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو ) ایک بات ضرور ہے کہ حماس نے 7 اکٹوبر کو اسرائیل پر جو حملے کئے ہیں ان حملوں نے غزہ میں سارا سیاسی پس منظر بدل کر رکھ دیا ہے لیکن وہ اس تنازع کو ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی جنگ میں تبدیل کرنے سے قاصر رہا۔ اسرائیل غزہ پٹی پر بموں کی بارش کررہا ہے، فضائی حملوں کے ذریعہ اس نے شمالی غزہ کو تقریباً ملبہ میں تبدیل کردیا ہے جبکہ ایران اور دوسرے ملک اسرائیل کو فضائی حملے روکنے پر مجبور کرنے سے قاصر ہیں۔
اسرائیل کے فضائی حملوں میں 9000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ اسرائیل نے اپنے فضائی حملوں کے ذریعہ رہائشی عمارتوں، اسکولوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جس میں ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان حملوں اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ غزہ کی تباہی و بربادی کیلئے اسرائیل کی مذمت کرنے کی بجائے امریکہ ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی اور یونان کے لیڈران نے اسرائیل کے دورے کرتے ہوئے اس کے ساتھ اظہارِ یگانگت کیا لیکن اسرائیل کے جنگی جرائم پر کچھ بولنے کیلئے ان کے منہ نہیں کھلے، ان کی زبان گنگ ہوکر رہ گئی اور جب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اسرائیل کی جانب سے عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑانے اور غزہ پر دَم گھٹنے والے قبضہ پر تنقید کی تب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ان کے استعفی کا مطالبہ کردیا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے یہ کہتے ہوئے غزہ میں نیتن یاہو کے جنگی جرائم کو منظوری دی کہ یہ تو اسرائیل کا حقِ دفاع ہے۔ بد قسمتی بلکہ بدبختی کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں بجلی، فیول سپلائی کرنے سے انکار کردیا، غذائی اشیاء اور پانی سربراہ کرنے کی اجازت نہیں دی حد تو یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کیلئے ادویات لے جانے پر بھی پابندی عائد کردی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتلِ عام ہے، اسرائیل کی درندگی اور بدترین کارروائیاں ہیں۔ اس المیہ کا دردناک اور سب سے بدبختانہ پہلو اسلامی ملکوں کی مجرمانہ خاموشی ہے ، وہ فلسطین پر ایک طرح سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ یاسر عرفات کو بھی عرب اور اسلامی ملکوں کی تائید و حمایت حاصل نہ تھی جبکہ محمود عباس اسرائیلی ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ عرفات کے بعد فلسطینیوں کا کوئی حقیقی لیڈر نہیں رہا، حماس تو ایک گوریلا تنظیم ہے۔ اسرائیل نے محمود عباس سے لیکر مصر کو بھی یہ انتباہ دے دیا کہ خبردار دو مملکتی حل کی بات نہ کرنا۔ اسرائیلی کارروائیوں سے اس کا یہ پیغام واضح ہے کہ کوئی بھی مسلم ملک کو فلسطینیوں کے حق میں اس کی تائید میں نہیں ٹہرنا چاہیئے اور کسی کو بھی دو مملکتی حل کی بات نہیں کرنی چاہیئے۔ دوسری طرف ہندوستان نے بھی اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرانے بات چیت کیلئے رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے جبکہ یرغمالیوں کے رشتہ دار اپنے عزیزوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی نہیں چاہتے کیونکہ جب تک یرغمالی حماس کے قبضے میں رہیں گے نیتن یاہو غزہ پر بمباری کو منصفانہ قرار دینے میں کامیاب رہیں گے۔ نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ وہ اسپتالوں کو اس لئے نشانہ بنارہے ہیں کیونکہ حماس کے جنگجو اسپتالوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو کا واحد مقصد غزہ کو زمین کے برابر کردینا ہے تاکہ برسوں تک غزہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکے، تب تک سعودی عرب، ایران، قطر، مصر اور ترکی غزہ میں ہلاکتوں اور تباہی کا تماشہ دیکھتے رہیں گے۔