حیدرآباد ۔ 3 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز ) : ریاستی حکومت نے دو دہائیوں کے بعد ضیا گوڑہ کے مسلخ کو جدید بنانے کے لیے ہری جھنڈی دے دی ہے ۔ سات ماہ قبل حکومت نے جی ایچ ایم سی کو سرکاری فنڈز سے اس پراجکٹ کو شروع کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس کے بعد سے انجینئروں کو تقریبا دس مرتبہ کمشنر آفس میں مسلخ کا کام کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس میں ابھی تک پیشرفت نہیں کی گئی ۔ سینئیر انجینئرز یہ کہہ کر ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ وہ ماڈل ڈیزائن کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ٹنڈر کا عمل وقتاً فوقتاً ملتوی کیا جارہا ہے ۔ ضیاگوڑہ میٹ مارکٹ پرانا پل کے قریب موسیٰ ندی کے کنارے میں تقریبا 9 ایکر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ گوشت کے تاجر ، کمیشن ایجنٹ ، ذبح خانے کے کارکنان اور دیگر افراد جو تقریبا پانچ ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم ہورہا ہے ۔ شہر میں استعمال ہونے والے 80 فیصد گوشت کی سپلائی ضیا گوڑہ سے ہورہی ہیں ۔ ذبح فاضلہ جو خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بعد تعداد کو ذبح کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بکریوں کی منڈی پوری بدبو سے بھری ہوئی ہے ۔ ٹنوں سے گوشت کا فضلہ اور کچرا سڑکوں پر بھر رہا ہے ۔ دوپہر 12 بجے تک کچرے کو ہٹانے کا عمل جاری رہتا ہے اور اس وقت تک اس روڈ پر جانا عوام کے لیے خطرناک ثابت ہورہا ہے ۔ جی ایچ ایم سی میں ایک پراجکٹ ڈپارٹمنٹ تشکیل دیا گیا ہے ۔ جس میں سینئیر انجینئر بھاسکر ریڈی کے ساتھ دیگر سینئیر انجینئرز کی 20 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے ۔ سات ہزار کروڑ روپئے کے پراجکٹس (اوور پاسز ، سڑک کی توسیع ) جن کا چیف منسٹر نے ایک سال قبل سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ ضیا گوڑہ سلاٹر ہاوس اور دیگر کام سب ان کے دائرہ کار میں ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوا ۔ یہ تنقیدیں بھی کی جارہی ہے کہ ترقیاتی منصوبہ پچھلی حکومت کے دور میں تیار کیا گیا تھا اور انجینئر ان کو خاطر میں لائے بغیر اور نئے ڈیزائن بناکر وقت ضائع کررہے ہیں ۔ حال ہی میں کمشنر آر وی کرنن نے انجینئروں پر اپنے شدید غصے کا اظہار کیا تھا ۔۔ ش