یشونت سنہا
(سابق مرکزی وزیر فینانس)
وائیٹ ہاؤز کے طبی مشیر ڈاکٹر انتھونی فاشی نے امریکی سینیٹ کو جاریہ ماہ کے اوائل میں بتایا کہ ہندوستان آج کووڈ۔ 19 وباء کی جس طرح خطرناک لپیٹ میں ہے، اور وہاں کورونا متاثرین اور کورونا سے متعلق اموات کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس کے لئے دراصل ہندوستانی ہی ذمہ دار ہیں، کیونکہ اُن لوگوں نے یہ غلط تصور کرلیا تھا کہ ہم نے کورونا پر قابو پالیا اور اس کا خاتمہ کردیا ہے۔ ان کا یہی تصور بڑا تباہ کن ثابت ہوا۔ ڈاکٹر فاؤشی نے ہندوستانی حکومت کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ آپ فوری طور پر ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کردیں جس سے کورونا کے متاثرین اور اس سے مرنے والوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔ ڈاکٹر فاشی کے مطابق سب سے اہم چیز یہ ہے کہ حالات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے، بلکہ سنجیدگی سے لینا چاہئے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ ابھی کورونا پر قابو نہیں پایا گیا ہے۔ ایک طرف ڈاکٹر انتھونی فاشی اس طرح کی باتیں کررہے ہیں اور ان کی باتیں غلط بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہندوستان میں کورونا وائرس سے تباہی و بربادی کو دیکھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکومت اب تک کیا کررہی ہے؟ جنوری کے وسط میں ہندوستان نے کووڈ۔ 19 کے خلاف ٹیکہ اندازی مہم شروع کی۔ 22 جنوری کو وزیراعظم نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہم اب پوری طرح خودمکتفی ہوچکے ہیں اور خاص کر کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں ہندوستان دوسرے ممالک کی مدد بھی کررہا ہے اور یہ مدد ٹیکوں کی فراہمی کی شکل میں کی جارہی ہے۔ 28 جنوری کو مودی نے ورلڈ اکنامک فورم کو بتایا کہ ہندوستان ٹیکوں کے ذریعہ دوسرے ملکوں کی مدد کرے گا۔ مودی نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندوستان نے کووڈ کو شکست دیتے ہوئے دنیا کو بچا لیا ہے۔
دوسری طرف بی جے پی کے تنظیمی عہدیدار بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور مودی کی تعریف و ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے تھے۔ 21 فروری کو بی جے پی کا ایک تنظیمی اجلاس منعقد ہوا جس میں بی جے پی رہنماؤں نے مودی کی قیادت کو ایک بصیرت افروز قیادت کا نام دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے ساری دنیا کو بتادیا کہ ہندوستان ایک عالمی فارمیسی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہم نے کورونا کو شکست دے دی ہے۔ دنیا کے 70 ملکوں کو ٹیکے بھی فراہم کردیئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود ہمارے ہی ملک میں ٹیکہ اندازی مہم تعطل کا شکار ہوگئی ہے اور ہندوستانی عوام مودی حکومت پر اس بات کیلئے تنقید کررہے ہیں کہ اس نے آخر کس بنیاد پر ٹیکے بیرونی ممالک کو برآمد کئے ہیں۔ عوام کی اس تنقید پر شرمسار ہوتے ہوئے حکومت اور بی جے پی کے ترجمان اب یہ کہنے لگے ہیں کہ بیرونی ممالک جو ٹیکے برآمد کئے گئے، وہ لائنسنگ معاہدات کے تحت کئے گئے اور ان کے پاس اس قدر کثیر مقدار میں ٹیکے برآمد کرنے کے سواء کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ بی جے پی عجیب و غریب چالیں چل رہی ہے۔ وہ ہیڈ اور ٹیل یا چت پٹ کا کھیل کھیل رہی ہے یعنی چت آیا تو میری جیت اور پٹ آیا تو آپ کی ہار۔ ایسے میں وہ اس طرح کے دعوے کررہے ہیں جو ان کیلئے موزوں ہوں۔ مثال کے طور پر ہندوستان کو وشوا گرو قرار دے کر دنیا کی مدد کرنے والا کہتے ہوئے اس کا کریڈٹ خود لے رہے ہیں اور جب وشوا گرو کا کردار خطرہ میں دکھائی دیتا ہے اور ان کے دعوے غلط ثابت ہوتے ہیں تو پھر اس کیلئے عالمی قانونی ذمہ داریوں کو پیش کرنے لگے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی میں بعض سماجی جہد کاروں نے ایسے پوسٹرس چسپاں کئے جس پر لکھا تھا ’’وزیراعظم! آپ ہمارے بچوں کے ٹیکے باہر کیوں بھیجے ہیں؟‘‘ اس طرح کے پوسٹرس چسپاں کئے جانے کے بعد کئی لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، حالانکہ بی جے پی قائدین، وزیراعظم اور اقوام متحدہ میں ہندوستان کے نمائندے نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے بیرونی ممالک ٹیکے برآمد کئے ہیں اور ہندوستان دنیا کی مدد کررہا ہے۔ ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جبکہ ٹیکوں کے بارے میں سوال کرنے والے پوسٹرس چسپاں کئے جانے پر حکومت برہم ہوجاتی ہے، پولیس ایف آئی آر درج کرسکتی ہے اور پھر پوسٹرس چسپاں کرنے والے غریبوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
مودی ایسا لگتا ہے کہ سوشیل میڈیا کی جنگ بھی ہار رہے ہیں۔ اس سے پہلے میں نے وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹس کئے تھے، تب بھکتوں نے مجھے ہر طرف سے گالی دی تھی، لیکن آج جب میں ٹوئٹ کرتا ہوں تو گالیوں سے کہیں زیادہ میرے ٹوئٹس کو ’’لائیکس‘‘ ملتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لہر کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔ آج ہمارے پاس ایک منتخبہ حکومت ہے اور اس حکومت کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایک طاقتور وزیراعظم کے تحت یہ کام کرتی ہے، لیکن ان کی طاقت کا اندازہ کورونا بحران سے نمٹنے کے معاملے میں ہوگیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ہمارے ہم خیال وزرائے اعلیٰ آگے بڑھتے ہوئے اس عالمی وباء سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی طئے نہیں کرسکتے؟ ہمارے ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ مرکزی حکومت پر تکیہ نہ کریں ، یہاں تک کہ فنڈس وغیرہ پر بھی انحصار نہ کریں بلکہ خرچ وغیرہ ریاستی خزانہ سے کریں اور ریاست میں جو بیوروکریسی ہے، اس کے بہتر طور پر استعمال کو یقینی بنائیں۔ میں جانتا ہوں کہ بیوروکریسی ہمیشہ حالات سے سمجھوتہ کرلیتی ہے اور اس کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور خود کا موقف محدود کرلیتی ہے لیکن کورونا بحران نے بیوروکریسی کو اپنی صلاحیتیں منوانے کا تاریخی موقع فراہم کیا ہے۔ فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کلکٹرس موثر انداز میں اپنا کردار ادا کریں اور اضلاع کے معاملے میں راست طور پر کلکٹروں کو ذمہ دار بنایا جائے اور ساتھ ہی منتخبہ نمائندے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ آج ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں کورونا کے خطرناک بحران کا سامنا ہے، ایسے میں سچائی اور دیانت داری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور موجودہ حکومت سے ہم سچائی اور دیانت داری کی اُمید نہیں کرسکتے۔ یہ حکومت ایسی ہے جس نے جھوٹ سے اپنا تعلق مضبوط کرلیا ہے اس کے باوجود ہم تمام کو اپنے ملک اور اس کے عوام کو بچانے کیلئے اپنے طور پر کوشش کرنی چاہئے۔