طاقت جو ملی ہے تو وہ اِترانے لگا ہے

   

یو پی… اپوزیشن منتشر… بی جے پی کو طالبان کا سہارا

رشیدالدین
یوں تو ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے لئے پانچ ماہ باقی ہیں لیکن اترپردیش میں ابھی سے انتخابی ماحول گرم ہوچکا ہے۔ پنجاب ، گوا ، اتراکھنڈ اور منی پور میں بھی اسمبلی انتخابات ہوں گے لیکن وہاں ابھی کوئی خاص سرگرمیاں نہیں ہیں۔ اترپردیش میں ابھی سے انتخابی رنگ کی اہم وجہ یہ ہے کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش اور بہار سے ہوکر گزرتا ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی کیلئے یو پی کی کامیابی دراصل منی جنرل الیکشن کی کامیابی کی طرح ہے۔ اقتدار میں واپسی کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست کے دوروں کا آغاز کردیا ہے تو دوسری طرف گودی میڈیا اور بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے سنگل ایجنڈہ کے ساتھ مورچہ سنبھال لیاہے۔ مختلف سروے کے نام پر یوگی ادتیہ ناتھ کی اقتدار میں واپسی کے دعوے کرتے ہوئے رائے دہندوں کے ذہنوں پر بی جے پی کو مسلط کرنے کی کوشش ہے تاکہ اپوزیشن کے ہمدرد بھی الجھن کا شکار ہوجائیں۔ بی جے پی ایک طرف انتخابی میدان میں مقابلہ کی تیاری کر رہی ہے تو دوسری طرف نفسیاتی جنگ میں مصروف ہے تاکہ اپوزیشن کے حوصلوں کو پست کیا جائے ۔ اس منصوبہ بندی کے تحت وقفہ وقفہ سے میڈیا کے سروے میں بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کے دعوے کرتے ہوئے عملاً انتخابی مہم چھیڑدی گئی ۔ گودی میڈیا نے رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ اساس پر تقسیم کرنے کیلئے روزانہ کسی حساس مسئلہ پر مباحث کے ذریعہ ماحول کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ہے۔ عام طور پر اسمبلی انتخابات مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں لیکن اترپردیش کی سیاست پر ہمیشہ سے قومی مسائل کا غلبہ رہا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے عوام کی بھلائی اور ریاست کی ترقی سے زیادہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر عمل کیا ۔ رام مندر کی تعمیر اور مسلم ناموں سے منسوب شہروں اور عمارتوں کے نام کی تبدیلی کے ذریعہ عوام کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کیا گیا۔ ایک جہاندیدہ شخصیت کے وہ جملے ہمیں یاد آرہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جذباتی مسائل ہمیشہ حقیقی مسائل پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ آدمی بھلے ہی غریب ، بیروزگار اور بھوکا کیوں نہ ہو اشتعال انگیزی اور جذباتی مسائل کا بآسانی شکار ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی ملک بھر میں اسی پالیسی پر کاربند ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں اس قدر مسائل پیدا ہوئے کہ اگر کسی اور پارٹی کی حکومت ہوتی تو عوام سڑکوں پر دکھائی دیتے۔ اسے بی جے پی کی خوش قسمتی کہیں یا پھر ان کے پالیسی میکرس کی کامیاب منصوبہ بندی کہ ملک میں عوام تکالیف کے باوجود ہر مصیبت کو خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔ بیروزگاری ، مہنگائی ، بیماری اور معاشی انحطاط کی انتہا کے باوجود عوام میں حکومت کے خلاف ناراضگی کا جذبہ نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اکثریتی طبقہ کے ذہنوں میں ہندوتوا کا زہر گھول دیا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نریندر مودی ہندوؤں اور ہندوتوا کے محافظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی سے لے کر پٹرول ، ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتوں میں اضافہ کو بھی عوام نے ہضم کرلیا ہے۔ وہ بھی ایک وقت تھا جب پیاز کی قیمت میں اضافہ پر دہلی کی حکومت زوال سے دوچار ہوگئی تھی۔ بوفورس اسکام نے راجیو گاندھی کو اقتدار سے محروم کردیا تھا ۔ پتہ نہیں کیوں عوام کی ذہن و فکر میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ ہر شعبہ میں دھاندلی اور اسکام ، حتیٰ کہ ہر سطح پر ناکامی کے باوجود مودی حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ یہی حال یوگی ادتیہ ناتھ کا ہے ۔ بھلے ہی یوگی عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود میں ناکام رہے لیکن جارحانہ فرقہ پرستی ایجنڈہ پر عمل آوری میں وہ مودی کے حقیقی شاگرد ثابت ہوئے ۔ استاد کی جانب سے سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کا نعرہ بھلے ہی کیوں نہ لگایا جائے لیکن یوگی کی حکمرانی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ یوگی کے اطمینان کی اہم وجہ منتشر اپوزیشن ہے ۔ جس طرح قومی سطح پر اپوزیشن بکھرا ہوا ہے ، اسی طرح اترپردیش میں بھی زمینی سطح پر یوگی کو چیلنج دینے والی قیادت موجود نہیں ہے۔ ایس پی اور بی ایس پی دو سیکولر طاقتوں کے باوجود آپس میں دست و گریباں ہیں جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ گزشتہ چناؤ میں سیکولر ووٹ کی تقسیم سے جو نقصان ہوا ، اس سے سبق لینے کے لئے دونوں تیار دکھائی نہیں دیتے۔ برتری اور انانیت کے جذبہ نے پھر ایک مرتبہ یوگی کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کردی ہے۔ مسلمان 19 آبادی کے ساتھ فیصلہ کن موقف اور بادشاہ گر کے بجائے ووٹ کی تقسیم کے نتیجہ میں محکوم کی طرح ہیں۔ مسلم ووٹ بانٹنے کیلئے پہلے سے دو کافی تھے لیکن مسلمانوں کے اور بھی مسیحا میدان میں کود پڑے ہیں۔ سیکولر ووٹ ایک طرف منقسم ہیں تو دوسری طرف اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد ہیں۔ یو پی میں یوگی کو شکست دینا ہو تو منتشر گھر کے بجائے سیکولر طاقتوں کی شیرازہ بندی ضروری ہے۔ اترپردیش جو کبھی کانگریس کا گڑھ تھا ، وہاں آج وہ اپنے وجود کی برقراری کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کانگریس کا کوئی مقبول عام چہرہ نہیں جسے دیکھ کر عوام قریب آسکیں۔ کانگریس کی کمزوری کا اندازہ اس وقت ہوگیا جب اپنی آبائی نشست سے راہول گاندھی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ تو کیرالا کے رائے دہندوں نے گاندھی خاندان کی لاج رکھ لی ورنہ راہول گاندھی پارلیمنٹ میں دکھائی نہ دیتے۔ کانگریس کے اچھے دن واپس لانے کے لئے پرینکا گاندھی متحرک ہوچکی ہیں ۔ باوجود اس کے کانگریس کو ایس پی اور بی ایس پی کا دامن تھام کر چلنا ہوگا ۔ اگر تینوں پارٹیاں تنہا مقابلہ کرتی ہیں تو ظاہر ہے کہ فائدہ ووٹوں کی تقسیم کا بی جے پی کو ہوگا۔ مغربی بنگال کی طرح اترپردیش میں کوئی ممتا بنرجی نہیں ہے جو بی جے پی کا مقابلہ کرسکیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کے لئے اپوزیشن سے زیادہ کوئی خطرہ بن سکتے ہیں تو وہ کسان ہیں۔ مظفر نگر کی مہا پنچایت میں کسانوں نے یوگی حکومت کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس کے مقابلہ کسان اصل اپوزیشن دکھائی دے رہے ہیں۔ بھلے ہی کسان فی الوقت یوگی اور بی جے پی سے ناراض ہیں لیکن انتخابات کے لئے ابھی پانچ ماہ کا وقفہ ہے اور اس وقفہ کے دوران کسانوں کا احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا ، کہا نہیں جاسکتا۔ کئی ماہ تک احتجاج جاری رکھنا آسان نہیں ہے ۔ اگر مودی حکومت محسوس کرے کہ کسان احتجاج یو پی میں بی جے پی کی نیا ڈبودے گا تو عین ممکن ہے کہ نریندر مودی متنازعہ زرعی قوانین سے دستبرداری اختیار کرلیں۔
بی جے پی کو انتخابی فائدہ کیلئے ہمیشہ نئے ایجنڈہ کی تلاش ہوتی ہے ۔ یو پی میں رام مندر اب انتخابی موضوع نہیں رہا لہذا افغانستان اور طالبان کے نام پر انتخابی مہم چلائی جائے گی ۔ مودی حکومت نے طالبان کے مسئلہ پر غیر واضح موقف کے ذریعہ یو پی الیکشن کے ایجنڈہ کو طئے کردیا ہے ۔ طالبان کی جس شدت سے مخالفت کی جائے گی ، اتنا فائدہ ہوگا اور اگر طالبان سے نرم رویہ اختیار کریں تو ہندوؤں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ افغانستان میں 20 سال تک ہندوستان نے ترقیاتی کام انجام دیئے اور ان تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیا گیا ۔ بی جے پی کے لئے ملک کی سلامتی سے زیادہ اترپردیش کی کامیابی اہمیت کی حامل ہے ۔ سیاسی مبصرین کو اس بات کی تشویش ہے کہ دشمن ممالک طالبان سے قربت اختیار کر رہے ہیں لیکن مودی حکومت خواب غفلت کا شکار ہے۔ چین اور پاکستان کی طالبان حکومت سے قربت کشمیر اور سرحد پر مسائل میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ مایوسی کے حالات میں ٹاملناڈو سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ ملک بھر میں سیاہ قوانین کے خلاف جدوجہد کرنے والی سیکولر ، جمہوریت پسند اور انصاف پسند طاقتوںکو اس وقت نیا حوصلہ ملا جب ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے حکومت نے CAA قانون کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کی ہے۔ چیف منسٹر اسٹالن نے عوام سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون 2019 ء سے دستبرداری کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری کو روکنے کا مودی حکومت سے مطالبہ کیا ۔ ڈی ایم کے ابتداء سے ہی سیاہ قوانین کی مخالفت کر رہی ہے، اس کا کہنا ہے کہ جب پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہندو پناہ گزین آسکتے ہیں تو پھر سری لنکا کے ٹامل پناہ گزینوں کا کیا قصور ہے۔ ٹامل پناہ گزین بھی ہندو ہیں جو سری لنکا میں مظالم کا شکار ہیں، انہیں بھی ہندوستانی شہریت ملنی چاہئے ۔ صرف تین ممالک تک شہریت کے مسئلہ کو محدود کرنا دیگر ممالک کے ہندوؤں سے ناانصافی کے مترادف ہے۔ اسٹالن نے ٹامل پناہ گزینوں کی تائید کے ساتھ ساتھ سیکولر اور اقلیتوں سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کرتے ہوئے مودی حکومت پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ ٹاملناڈو ملک کی آٹھویں ریاست ہے جس نے سیاہ قوانین کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاملناڈو اسمبلی میں جب قرارداد منظور کی جارہی تھی ، اس وقت اپوزیشن انا ڈی ایم کے کے ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی غیر حاضری حکومت کی قرارداد کی خاموش تائید ہے۔ انا ڈی ایم کے ، ٹامل پناہ گزینوں اور مسلمانوں کی ناراضگی مول لینے تیار نہیں ہے۔ منظر بھوپالی نے آج کے حکمرانوں پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
طاقت جو ملی ہے تو وہ اِترانے لگا ہے
یہ بھول گیا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے