گجرات سے منی پور تک … نیرو کی بانسری کا سفر
INDIAکا NDAسے مقابلہ … بی جے پی کی نیند حرام
رشیدالدین
’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ روم کے بادشاہ نیرو کو گزرے کئی صدیاں گزرچکی ہوں گی لیکن ہر دور میں نیرو کے جانشین دکھائی دیتے رہے۔ نام اور علاقہ بھلے ہی مختلف ہو لیکن کردار تو وہی ہے ۔ نریندر مودی کو دو مرتبہ نیرو کے کردار میں دیکھا گیا ۔ پہلی مرتبہ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے گجرات فسادات اور پھر دوسری مرتبہ وزیراعظم کے طور پر منی پور فسادات پر نریندر مودی کو روم کے نیرو کے خطاب سے نوازا گیا ۔ فلمی شخصیتیں بھی ایک سے زائد مرتبہ کسی ایک کردار کو ادا کرنے میں بوریت محسوس کرتی ہیں لیکن وزیراعظم کو نیرو کا کردار کچھ زیادہ ہی پسند آگیا جس کے نتیجہ میں نیرو کی خصوصیات مودی کی شخصیت میں سرایت کرچکی ہیں۔ گجرات کے چیف منسٹر سے وزارت عظمیٰ کے طویل سفر میں یوں تو کئی مواقع پر نریندر مودی شہنشاہ روم کی شکل میں دکھائی دیئے ۔ ایک ہنگامہ محشر ہو تو اس کو بھولوں کہ مصداق واقعات کا ایک ایسا تسلسل ہے جہاں نریندر مودی کو نیرو کے کردار میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ گجرات جل رہا تھا ، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی ، ماؤں اور بہنوں کی عصمت اور عفت تار تار کی جارہی تھی ، بے قصور زندہ جلائے جارہے تھے ، شیرخوار بچوں کو نیزہ پر اچھالا جارہا تھا، ایسے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے ، فون پر بھرائی ہوئی آواز آئی کہ مودی جی میں احسان جعفری ، فسادیوں نے میرے گھر کو گھیرلیا ہے ، میری مدد کیجئے ، ہم کو بچالیجئے ۔ درد بھری فریاد کے جواب میں کچھ گالیاں پھٹکار ملی اور فون رکھ دیا گیا۔ احسان جعفری جو سابق رکن پارلیمنٹ تھے ، امید کر رہے تھے کہ چیف منسٹر ان کے خاندان کا تحفظ کریں گے لیکن فسادیوں نے تقریباً خاندان کا صفایا کردیا۔ ذکیہ جعفری آج تک بھی انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ گجرات جلتا رہا لیکن وقت کے نیرو کو رحم نہیں آیا اور بانسری کی گونج راجدھانی دہلی تک پہنچی اور آخرکار وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو گجرات پہنچ کر ’’راج دھرم‘‘ نبھانے کا درس دینا پڑا۔ جس پر مودی نے جواب دیا تھا کہ ہم تو وہی نبھا رہے ہیں۔ گجرات ایپی سوڈ کی کامیابی نے نریندر مودی کو راجدھانی دہلی تک پہنچا دیا۔ پھر کیا تھا کہ بانسری کی گونج دوبارہ سنائی دینے لگی۔ بے قصور مسلمانوں کی ماب لنچنگ میں ہلاکتیں ہوتی رہیں، مذہب ، زبان ، لباس ، غذا اور داڑھی کے نام پر بازاروں ، محلوں ، بسوں حتیٰ کہ ٹرین میں حملے جاری ر ہے۔ لو جہاد کے نام پر تشدد ہوتا رہا ۔ مساجد اور مدارس پر بلڈوزر چلتے رہے۔ اذاں اور نماز پر اعتراضات اٹھنے لگے۔ کھلے عام نماز کی ادائیگی پر جیل بھیج دیا گیا۔ حجاب پر پابندی عائد کردی گئی ۔ شریعت میں مداخلت کی گئی ۔ الغرض مسلمانوں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹتے رہے لیکن نیرو کی بانسری ہے کہ رکنے کے نام نہیں لے رہی تھی۔ ملک کا مسلمان تو بانسری کی آواز کا عادی ہوچکا ہے لیکن دلت اور قبائل کو بانسری پر رقص کا اندازہ نہیں تھا ۔ اگر مسلمانوں پر مظالم کے وقت دلت اور قبائل آواز بلند کرتے تو شائد آج بانسری کی گونج سننے پر مجبور نہ ہوتے۔ دلتوں کو مندر میں داخلہ پر پابندی کے بارے میں تو ہر کسی نے سنا تھا لیکن اب تو دلتوں پر پیشاب کیا جانے لگا۔ دلت اور قبائل کی خواتین کی عریاں پریڈ اور عصمت ریزی کے واقعات معمول بن گئے ۔ پھر بھی نیرو کی بانسری نہیں رکی۔ منی پور دو ماہ سے جل رہا ہے ، مخصوص قبائل کا قتل عام جاری ہے ، سینکڑوں گرجا گھروں کو آگ لگادی گئی ۔ مکانات اور دکانات کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیا گیا۔ منی پور جلتا رہا لیکن نریندر مودی بیرونی دوروں کے مزے لوٹتے رہے۔ بیرونی سربراہوں کے ساتھ تفریح اور جام صحت ٹکراکر دوستی کا ثبوت دینے میں مگن رہے۔ مودی کے پاس بیرونی دوروں کیلئے وقت تھا لیکن ملک کی ریاست منی پور کا دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اتنا ہی نہیں 79 دن تک منی پور کے واقعات پر زبان نہیں کھولے اور نہ ہی من کی بات کی۔ منی پور کے حالات پر تبصرہ کرنا شائد کسی اور ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا ہو۔ اسی طرح مودی خاموش رہے۔ نیرو کی بانسری نے کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کردیا لیکن تعلیم کی گونج میں منی پور کے مظلوموں کی آہیں اور فریاد دب گئی ۔ خواب کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو نیند سے بیدار ہوتے ہی ٹوٹ جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح منی پور کے دو قبائلی خواتین کے برہنہ گشت اور عصمت ریزی کے وائرل ویڈیو نے مودی کی بانسری کے سر کو ختم کردیا اور دنیا بھر میں ہندوستان کی رسوائی کے بعد وزیراعظم کو ہوش آیا اور انہوں نے منی پور پر اپنی خاموشی کو توڑ دیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 56 انچ کی جلد کو منی پور کے زخم کا احساس کرنے میں 79 دن لگ گئے اور مگرمچھ کے آنسو بہائے گئے۔ گجرات فسادات پرافسوس تو دور کی بات الٹا فخر کیا گیا لیکن دلتوں اور قبائل پر مظالم کی مذمت کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ مسلمانوں کے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہے کیونکہ دوسری بڑی اکثریت کے باوجود قوم متحد نہیں ہے۔ دلت اور قبائل متحد ہیں اور وہ جواب دینا بھی جانتے ہیں، لہذا نریندر مودی کو بانسری کا کھیل روکنا پڑا۔ یہ تو رہا بانسری کا طویل سفر جو گزشتہ 20 برسوں میں کئی خونی داستانوں کا گواہ ہے۔
نریندر مودی نے منی پور میں 150 اموات کے بعد آخرکار خاموشی کو توڑ دیا لیکن اس معاملہ میں بھی سیاست کرنے سے نہیں چوکے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے منی پور کے حالات پر مرکزی حکومت کو کارروائی کیلئے وقت دیتے ہوئے انتباہ دیا کہ اگر حکومت کارروائی نہیں کرے گی تو ہمیں دخل دینا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کی اس دھمکی کے بعد وزیراعظم نے منی پور کے واقعات پر مگرمچھ کے آنسو بہائے اور چھتیس گڑھ و راجستھان کو گھیرنے کی کوشش کی ۔ معاملہ جب منی پور کا تھا تو ایسے میں کانگریس زیر اقتدار ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ کا تذکرہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صورتحال کے بے قابو ہونے کے باوجود منی پور میں صدر راج نافذ نہیں کیا گیا ۔ منی پور کے بی جے پی چیف منسٹر بیرین سنگھ نے کہا کہ خواتین کی برہنہ پریڈ کے 100 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں۔ چیف منسٹر کے بیان سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملک کی ایک چھوٹی ریاست پر مرکزی حکومت قابو پانے میں ناکام ہے۔ فوج ، نیم فوجی دستے اور پولیس خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ فوج کے قبضہ سے فسادیوں کو چھڑانے کے واقعات سوشیل میڈیا پر وائرل ہونے لگے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے منی پور کا دورہ کیا لیکن وہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوگئے۔ منی پور میں کارروائی کرنے کے بجائے نریندر مودی نے راجستھان اور چھتیس گڑھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ہلاکتوں اور تشدد پر اپنی عدم دلچسپی کا ثبوت دیا ہے۔ دراصل نریندر مودی اور بی جے پی اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ سے پریشان ہے۔ انتخابات سے عین قبل ملک میں مخالف بی جے پی جماعتوں کے اتحاد کا اس سے قبل ایسا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اپوزیشن قائدین کو یقین ہوچکا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی ہراسانی اور جیل کی سلاخوں سے بچنے کا واحد راستہ اتحاد کی شکل میں ہوگا۔ 26 سے زائد اپوزیشن پارٹیوں نے کانگریس کی قیادت میں آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کا عہد کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد انڈیا کے نام سے نہ صرف بی جے پی بلکہ گودی میڈیا کو مرچی لگنا ہی تھا ۔ کچھ یہی ہوا اور انڈیا اتحاد کے اعلان کے ساتھ ہی گودی اور پالتو میڈیا کے اینکرس بی جے پی کو مشورہ دینے لگے کہ انڈیا نام کے خلاف عدالت سے رجوع ہوں۔ بی جے پی وہ دن بھول رہی ہے جب 2014 ء سے قبل نریندر مودی نے عوام سے انڈیا کے لئے ووٹ مانگا تھا۔ آج جب اپوزیشن نے انڈیا کو اختیار کیا تو بی جے پی کی نیند حرام ہوچکی ہے۔ اپوزیشن اتحاد نے اپنی تمام انتخابی چالوں کو مخفی رکھا ہے اور وقفہ وقفہ سے حکمت عملی کا اظہار کیا جائے گا۔ 2014 ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب نریندر مودی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور عدم تحفظ کے احساس نے انہیں منی پور کے معاملہ میں چھتیس گڑھ اور راجستھان کو گھسیٹنے پر مجبور کیا ہے ۔ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کا آغاز منی پور واقعات کی گونج سے ہوا۔ ابتدائی دو دن کوئی کارروائی نہیں ہوسکی اور آگے بھی منی پور کے حالات لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر چھائے رہیں گے ۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کے پاس منی پور کی ناکامیوں پر کوئی جواب نہیں ہے۔ منظر بھوپالی نے حکومت کے رویہ پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
طاقت جو ملی ہے تو وہ اِترانے لگا ہے
یہ بھول گیا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے