طالبان : اعتماد کی کمی کا پبلک ریلیشن مہم کے ذریعہ مقابلہ

   

کابل: طالبان مسکراتے ہوئے صحافیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، سڑکوں پر لوگ سیلفیاں لے رہے ہیں اور ٹی وی پر ان کے انٹرویو خواتین کر رہی ہیں۔ اس پبلک ریلیشن مہم کا مقصد دنیا کو یقین دلانا ہیکہ اس مرتبہ کے طالبان ’مختلف‘ ہیں۔لیکن طالبان کو اپنا یہ’2.0 ویژن‘ بیچنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ طالبان کی 1996 سے 2001ء تک کی سخت حکمرانی اور گزشتہ 20سالہ جنگ کے دوران ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی یادیں لوگوں کے اذہان سے چسپاں ہیں، خاص طور پر خواتین اور اقلیتیں اب بھی خوفزدہ ہیں۔طالبان کی پبلک ریلیشن مہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اپنی پہلی عوامی پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا، نظریات اور عقائد میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لیکن تجربے، پختگی اور بصیرت کی بنیاد پر، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تبدیلی آئی ہے۔انہوں نے تقریبا سبھی ایسے موضوعات پر بات کی، جن کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ان کی طرف سے سبھی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا، تعلیم اور ملازمت کی اجازت سمیت خواتین کو حقوق دینے کی بات کی گئی، میڈیا کو آزادی اور خودمختاری دینے کا اعلان کیا گیا اور یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی کہ آئندہ حکومت میں ملک کے تمام نسلی، مذہبی اور اقلیتی گروہوں کو شامل کیا جائے گا۔طالبان کی طرف سے یہ گارنٹی بھی دی گئی ہیکہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک یا قوم کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔