کابل ۔ افغانستان میں سینکڑوں نوجوان طالبان جنگجو اپنے ہتھیار چھوڑ کر اب حصول تعلیم کی راہ پر گامزن ہیں۔ کئی نوجوان طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے بھی حامی ہیں۔ گل آغا جلالی اپنی راتیں بم نصب کرنے میں گزارتے تھے، اس امید پر کہ وہ افغان حکومت کے فوجی یا اس سے بھی بڑھ کر کسی غیر ملکی فوجی کو نشانہ بنائیں گے۔ ان دنوں افغان طالبان کا یہ 23 سالہ رکن انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اس نے دارالحکومت کابل میں کمپیوٹر سائنس کے کورس میں داخلہ لیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے افغان وزارت ٹرانسپورٹ اینڈ سول ایوی ایشن کے ملازم جلالی کا کہنا تھا کہ جب ہمارے ملک پر کافروں کا قبضہ تھا تو ہمیں بموں، مارٹروں اور بندوقوں کی ضرورت تھی۔ تاہم اب جلالی کا خیال ہے کہ ملک کو تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے۔ گزشتہ سال اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے سینکڑوں جنگجو تعلیمی اداروں میں آ چکے ہیں، کچھ اپنے طور پر اور کچھ اپنے کمانڈروں کے حکم پر۔ 1990ء کی دہائی میں جنوبی افغانستان کے مدرسوں سے شروع ہونے والی اس سخت گیر تحریک ’طالبان‘ کے نام کا مطلب بھی طالب علم ہے۔ زیادہ تر طالبان جنگجو ان مدرسوں سے تعلیم یافتہ تھے جہاں تعلیمی موضوعات بڑی حد تک قرآن اور دیگر اسلامی موضوعات تک محدود ہیں۔