طالبان سے مذاکرات :افغان وفد میں 5 خواتین بھی شامل

,

   

کابل ۔ 28 مارچ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام)حکومت افغانستان نے طالبان سے بین فغان مذاکرات کیلئے 5 خواتین سمیت 21 رکنی وفد کو حتمی شکل دی ہے ۔مذاکراتی ٹیم کی قیادت سابق انٹلیجنس چیف معصوم استانک زئی کریں گے جو ایک پشتون کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ قبائلی شناخت رکھتے ہیں۔اگرچہ فوری طور پر ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ سابق چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ نے اس وفد کی تائید کی ہے یا نہیں تاہم وفد میں باتور دوستم بھی شامل ہیں جن کے والد سابق جنگجو عبدالرشید دوستم، عبداللہ عبداللہ کے حلیف تھے ۔دوسری جانب افغانستان کی وزارت امن نے کہا کہ افغانستان صدر اشرف غنی نے وفد کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ان پر زور دیا کہ بات چیت کے تمام مراحل میں ملک کے بہترین مفاد، افغان عوام کی مشترکہ اقدار اور متحدہ افغانستان کے اصولی موقف کو پیش نظر رکھیں۔وفد میں شامل 5 خواتین میں حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کی نائب رہنما حبیبہ سرابی بھی شامل ہیں جو ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔علاوہ ازیں وفد میں ایک خاتون مندوب فوزیہ کوفی بھی ہیں جو تاجک نسل سے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور طالبان کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔تاہم جہاں ایک طرف اس وفد کا اعلان کیا گیا ہے وہیں ابھی یہ نہیں معلوم کہ یہ بین الافغان مذاکرات کب اور کہاں شروع ہوں گے ۔ادھر عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔واضح رہے کہ افغان حکومت نے کہا تھا کہ ان کے عہدیدار براہ راست طالبان سے ملاقات کریں گے اور بڑے پیمانے پر قیدیوں کے تبادلہ پر بات چیت کریں گے جس میں 5 ہزار طالبان اور ایک ہزار حکومتی قیدی شامل ہیں۔خیال رہے کہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق امریکہ اور طالبان کا معاہدہ ہوچکا ہے جس پر افغان صدر اشرف غنی دستخط کنندہ نہیں ہیں۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے رہنماؤں، افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ کے مابین متوازی حکومت کی تشکیل سازی میں عدم اتفاق پر ایک ارب ڈالر امداد میں کمی کا فیصلہ کیا تھا۔