کوئٹہ : بلوچستان کے علاقے چمن اور افغانستان کے اسپن بولدک کے درمیان سرحدی گزرگاہ طالبان نے ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دی ہے۔طالبان نے سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاکس اور رکاوٹیں لگا کر دونوں ممالک کے درمیان قائم ’بابِ دوستی‘ بھی بند کر دیا ہے۔ منگل کی صبح جب دونوں جانب سے معمول کے مطابق لوگ سرحد پار کرنے پہنچے تو سرحد کی اچانک بندش کے باعث انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔سرحد کی اس جانب پاکستان میں چمن میں افغانستان جانے والے مسافروں کا رش بڑھ گیا ہے۔ چمن سے افغانستان جانے والے ایک افغان شہری عبد الباری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ علاج کیلئے پاکستان آئے تھے۔عبد الباری کے بقول چمن میں پاکستان افغاننستان سرحد کی اچانک بندش سے انہیں اور دیگر سیکڑوں افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چمن میں ان کے پاس رہائش اور خوراک کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔اس سے قبل بھی کئی روز چمن سرحد بند رہی تھی جس سے خواتین، بچوں اور بزرگ افراد کو بڑی پریشانی رہی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے سرحد بند کرنے کی بہت سی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ افغانستان میں اسپن بولدک میں طالبان کے مقرر کیے گئے ڈپٹی کمشنر ملا آغا جان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان افغانستان کی سرحد پر بابِ دوستی امارتِ اسلامی افغانستان نے بند کی ہے۔امارتِ اسلامی افغانستان نے گزشتہ شام سرحد کو پیدل آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت کے لیے تا حکمِ ثانی بند کیا ہے۔ڈپٹی کمشنر ملا آغا جان کا کہنا تھا کہ شہری سرحد کی جانب سفر کرنے سے گریز کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان سرحد اس وقت تک بند رہے گی جب تک پاکستان میں حکام سرحد پار کرنے والے افراد کی مشکلات میں کمی نہیں کرتے۔
افغانستان میں طالبان کے مقرر کردہ حکام نے عوام کو متنبہ کیا کہ وہ بابِ دوستی دروازہ پار کرنے کی کوشش نہ کریں۔پاکستان کی چمن سرحد پر ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحد کو پاکستان نہیں طالبان کی جانب سے بند کیا گیا ہے۔اہلکار کے مطابق طالبان حکام کے کچھ مطالبات ہیں جن میں پاکستان کے حکام کو کہا گیا ہے کہ وہ افغان شہریوں سے رویہ درست کریں۔ البتہ طالبان کے یہ مطالبات پاکستان میں سیکیورٹی حکام کو تحریری طور پر موصول نہیں ہوئے۔قبل ازیں افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اگست میں بھی ایک ہفتے تک سرحد بند رکھی تھی جو بعد میں پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے حکام میں مذاکرات کے بعد کھول دی گئی تھی۔