صدر اشرف غنی تاجکستان فرار، کابل کے 11 اضلاع پر کنٹرول، ایرپورٹ پر فائرنگ کی اطلاعات ‘ 20 سال بعد طالبان دوبارہ قابض
کابل: افغانستان کے اعلی عہدیدار کے مطابق صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوکر تاجکستان چلے گئے ہیں جبکہ طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونے اور شہر کی سکیورٹی سنبھالنے کا حکم دیدیا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے دو طالبان کمانڈروں کے حوالے سے بتایا ہیکہ طالبان نے افغان صدارتی محل ارگ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم ابھی تک افغان حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق ’طالبان بہت جلد کابل کے صدارتی محل سے ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کے قیام کا اعلان کریں گے۔‘ خیال رہے 2001 میں امریکی قبضے سے قبل طالبان حکومت کا نام ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ تھا۔دوسری جانب طالبان ترجمان نے بتایا کہ طالبان جنگجو کئی اطراف سے کابل میں داخل ہوگئے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ کے ملٹری یونٹ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور ان کی پیش قدمی معمول کے مطابق جاری ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی تین سینئر طالبان رہنماؤں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کا صدارتی محل پر قبضہ ہوگیا ہے۔ ایک طالبان کمانڈر نے اے ایف پی کو بتایا ’مجاہدین صدارتی محل میں داخل ہو گئے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘ ایک اور کمانڈر کا کہنا ہے کہ کابل کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک اجلاس صدارتی محل میں چل رہا ہے۔اس سے قبل افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے چیرمین عبداللہ عبداللہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’سابق صدر‘ اشرف غنی اس مشکل وقت میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ’ سخت دن اور رات جلد گزر جائیں گے اور لوگ جلد امن دیکھیں گے۔‘ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ’امارت اسلامیہ‘ کا بیان شیئر کیا تھا جس میں طالبان جنگجوؤں کو شہر میں داخلے کی ہدایت کے ساتھ تاکید کی گئی ہیکہ وہ کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں، کسی کو ہراساں نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچائیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ اس سے قبل امارات اسلامی کی جانب سے آج صبح یہ پیغام دیا گیا تھا کہ طالبان جنگجو کابل میں نہ داخل ہوں لیکن اب یہ رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ پولیس نے سکیورٹی فراہم کرنے کا کام چھوڑ دیا ہے، وزارتیں خالی ہو گئی ہیں، اور کابل کی سیکیورٹی ادارے کے افسران بھاگ گئے ہیں۔عام چور اور ڈاکو ایسی صورتحال سے فائدہ نہ اٹھائیں اور لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں، تو اسلامی امارت نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہیکہ اسی راستے سے کابل میں داخل ہوں جہاں سے دشمن نکلے تھے۔بی بی سی کے مطابق امریکی سفارتخانے کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سیکورٹی الرٹ میں کہا گیا ہیکہ کابل ایئر پورٹ پر فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے عہدیداروں نے امریکی شہریوں کو محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہیکہ ’کابل کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہیکہ اگر کسی بھی امریکی شہری کو کابل چھوڑنے کیلئے مدد کی ضرورت ہے تو وہ سفارتخانہ بند ہونے کے بعد آن رجسٹریشن کرائے۔ برطانوی میڈیا نے تاجک میڈیا کے حوالہ سے بتایا کہ اشرف غنی اور افغانستان کے نائب صدر کابل سے تاجکستان پہنچے۔ تاجک میڈیا کا کہنا ہیکہ وہ کسی دوسرے ملک کو روانہ ہوں گے۔ کابل ایرپورٹ سے تمام کمرشیل فلائیٹس کو معطل کردیا گیا ہے۔ صرف فوجی ایرکرافٹس کو اجازت دی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق طالبان نے دارالحکومت کابل کے 11 اضلاع کے سنٹرس کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ بتایا گیا ہیکہ کئی افغان ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدیدار دہلی میں پہنچ گئی ہیں۔ کابل کے صدارتی محل سے عنقریب امارت اسلامیہ افغانستان کے اعلان کی توقع ہے۔ سیکوریٹی کی ابتر صورتحال کے پیش نظر برٹش ایرویز نے اپنے پائلٹس کو افغان ایراسپیس استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ افغان قائدین نے طالبان سے ملاقات اور اقتدار کی منتقلی کیلئے رابطہ کونسل تشکیل دی ہے۔ بتایا گیاہیکہ اعلیٰ مصالحتی قومی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اس کی قیادت کریں گے جبکہ حزب اسلامی کے قائد گلبدین حکمت یار اور حامد کرزئی بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان 20 برس بعد دوبارہ افغانستان پر قابض ہوگئے ہیں۔رواں برس مئی سے افغانستان کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے وہ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔دوسری جانب اس خوف کے پیشِ نظر کہ طالبان دوبارہ جابرانہ نظام مسلط کردیں گے شہری ملک چھوڑنے کی کوششیں کررہے ہیں۔