طالبان کے موسم بہار میں شدید حملوں کا اندیشہ ،عبداللہ عبداللہ کا جرگا میں شرکت سے انکار

   

کابل ۔ 22 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپو نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو گذشتہ فہتہ کے اختتام پر فون کرکے طالبان کے ساتھ بات چیت کے غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہوجانے پر امریکہ کی مایوسی کا اظہار کیا اور طالبان شورش پسندوں کے موسم بہار کے حالیہ حملوں میں اضافے کی مذمت کی ہے۔ افغانیوں کے درمیان قطر میں گذشتہ جمعہ کو مذاکرات ہونے والے تھے۔ قطر میں طالبان کا ایک دفتر ہے۔ یہ بات چیت محض اس نکتہ پر ملتوی کردی گئی کہ اس میں کون حصہ لے گا۔ اگر یہ بات چیت شروع ہوجاتی تو طالبان اور کابل کی حکومت کے درمیان یہ پہلی بات ہوتی۔ اس اقدام کو افغانستان کے مسئلہ کے حل اور افغان جنگ کی تھی۔ امریکہ کی طویل لڑائی اور بالآخر امریکی افواج کی اس جنگی علاقے سے واپسی کی طرف ایک بہت ہی اہم اولین پہل تصور کیا جارہا تھا۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے بتایا کہ پومپیو نے اشرف غنی کو گذشتہ ہفتہ بات چیت کے التواء پر فون کیا اور طالبان کے موسم بہار میں اپنے حملے تیز کردینے کے اعلان کی مذمت کی۔ طالبان کا حملوں کا اعلان خود ان کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ طالبان نے سخت شدید موسم سرما میں بھی اپنے حملوں کو جاری رکھا اور تقریباً روز ہی ان کے حملے ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں میں طالبان نے ان سے نبردآزما افغانی فوج کو شدید نقصان پہنچایا اور دونوں فریقوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں سینکڑوں عام شہری بھی ہلاک ہوگئے۔ فون پر بات چیت کے دوران پومپیو نے اشرف غنی اور طالبان دونوں فریقوں کی حوصلہ افزائی کی کہ دونوں فریق بات چیت میں حصہ لینے پر آمادہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت ہی افغان میں امن کا بہترین موقع فراہم کرسکتی ہے۔ بات چیت کے التواء سے قبل امریکہ کے خصوصی امن کے ایلچی زلمے خلیل زادے جنہوں نے کئی بار طالبان سے ملاقات کی تھی اور افغانیوں سے افغانیوں کے درمیان بات چیت پر زور دیا تھا انہیں امید تھی کہ قطر بات چیت دونوں فریقوں کو افغانستان کے مستقبل کا روڈ میاپ تیار کرنے کیلئے قریب لائے گی۔ افغان شوریدہ سر طالبان کا افغانستان کے تقریباً نصف حصہ پر اثر ہے اور اس کے علاوہ اسلامک اسٹیٹ گروپ بھی بعض حصوں پر اپنا اثر رکھتا ہے۔ گذشتہ ہفتہ آئی ایس نے کابل میں وزیرمواصلات کو خودکش حملہ سے اپنا نشانہ بنایا اور حملے میں 7 افراد ہلاک ہوگئے۔ نام خفیہ رکھنے کی شرط پر افغانستان کی ایک ممتاز شخصیت نے بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے کئی سینئر مذاکرات کنندگان کو فون پر اشرف غنی نے ہدایت دی تھی کہ وہ مذاکرات کے درمیان اپنی شخصی رائے کا اظہار نہ کریں بلکہ طالبان کے ساتھ صرف مملکت افغانستان کی نمائندگی کریں۔ طالبان نے اپنی طرف سے کہا ہے کہ جتنے بھی لوگ گفت و شنید میں حصہ لیں گے وہ انہیں کسی حکومت کے نمائندے سمجھتے کہ بجائے عام افراد تصور کریںگے۔ اشرف غنی آئندہ ہفتہ کابل میں ’’ایک لویا جرگا‘‘ انعقاد عمل میں لارہے ہیں جس کی افغان پالیسی میں اپنی آواز ہوا کرتی ہے۔ اس جرگا کا ایک ’’متوقع ایجنڈہ‘‘ بھی ہوگا جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے کوئی مستحکم موقف کیلئے اختیارات پر بھی غور کیا جائے گا۔ تاہم افغان حکومت کے عاملانہ اختیار کے حامل عبداللہ عبداللہ نے لویا جرگا میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہیکہ لویا جرگا کے ارکان کا انتخاب صدر غنی نے کیا ہے اور وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے بھی آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔