طالبان 2.0 کیا کریں گے ؟

   

بابی گھوش
آیا یہ حقیقی طالبان 2.0 ہیں؟ فاتح طالبان کے گروپ نے جو پہلی پریس کانفرنس کابل میں منعقد کی، اس میں طالبان ترجمان نے وعدہ کیا کہ اب کی مرتبہ طالبان ہر طبقہ کا خیال رکھیں گے، اُن لوگوں نے پریس کانفرنس میں جس طرح کی باتیں کیں، اس سے یہ اُمید پیدا ہوئی کہ طالبان کی ذہنیت پچھلے 20 برسوں کے دوران کافی تبدیل ہوگئی ہے۔ ان کے سوچ و فکر کا انداز بدل گیا ہے۔ اور سنئے! طالبان، خواتین کو کام کاج کی اجازت دینے کی باتیں کررہے ہیں، لیکن طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ایک نئے بہتر اسلامی امارات افغانستان کے بارے میں جو تیقنات دیئے گئے اور وعدے کئے گئے، ان کا بہت ہی احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس بات کے بھی پورے پورے امکانات ہیں کہ طالبان ترجمان صرف عالمی گیلری کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور اگر ذبیح اللہ مجاہد پوری طرح سنجیدہ ہیں تو اس کا مطلب وہ صرف گروپ کے ایک دھڑے یا حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ طالبان اپنے اعلیٰ کمانڈر ہیبت اللہ آفند زادہ کی قیادت میں کام کررہے ہیں، اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان کی قیادت صرف ایک شخص کے اطراف نہیں گھومتی۔ اس کی قیادت میں ملا عبدالغنی برادر جیسی سیاسی شخصیت شامل ہے جو حالیہ عرصہ تک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کررہی تھی۔ ساتھ ہی طالبان قیادت میں سراج الدین حقانی اور محمد یعقوب جیسے فوجی کمانڈرس بھی شامل ہیں جو صرف مصالحت پسندی کو پکڑے نہیں رہیں گے یا اس پر راضی نہیں رہیں گے۔ جہاں تک محمد یعقوب کا سوال ہے، وہ طالبان کے سابق امیر ملا محمدعمر کے فرزند ہیں۔ کابل میں طالبان کے کس گروپ کو برتری حاصل ہے، اس کا پتہ چلنے میں ہفتے یا مہینے لگ جائیں گے لیکن اس سے بہت پہلے ہمیں پتہ چل جائے گا کہ آیا طالبان تبدیل ہوئے ہیں یا نہیں۔ طالبان قائدین کو یہ پتہ چلے گا کہ دارالحکومت کابل اور ملک بہت زیادہ تبدیل ہوچکا ہے اور عوام بھی یہ جان جائیں گے کہ افغانستان میں طالبان 2.0 برسراقتدار ہیں۔ اسی طرح طالبان بھی سمجھ جائیں گے کہ وہ جس افغانستان سے نمٹ رہے ہیں، وہ افغانستان 2.0 ہے۔ 1996ء میں جب طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا تھا، افغان معاشرہ انتہائی غریب، ناخواندہ اور گنوار تھا۔ آج بھی یہ گڑبڑزدہ ملک بہت غریب ہے۔ عوام کی معاشی حالت بہت خراب ہے، لیکن ملک کے دوسرے سماجی ۔ اقتصادی اعشاریہ میں 20 برسوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی ہے۔ اس عرصہ میں وہ لوگ ایک طرح سے تاریکی میں رہے۔

جہاں تک خواندگی کا سوال ہے، بالغ افغانوں میں خواندگی کی شرح 41% ہے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں افغان باشندے زرعی شعبہ میں ملازم ہیں۔ افغانستان اب دنیا سے الگ تھلگ بھی نہیں رہا۔ ٹی وی کی مقبولیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور سیل فون کا استعمال عام سی بات ہے لوگوں کو ایک بڑی دنیا تک رسائی حاصل ہے۔ افغان باشندوں کے عزائم اور رویہ میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ خواتین بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 20 برسوں کے دوران آبادی دگنی ہوکر 40 ملین تک پہنچ گئی ہے اور آبادی میں زیادہ تر اضافہ شہری علاقوں میں دیکھا گیا ہے۔ خود کابل کی آبادی تقریباً 4.5 ملین ہے اور اب وہ ایک میٹروپولس میں تبدیل ہوا ہے۔ 2001ء میں کابل کی آبادی 2.5 ملین تھی۔ طالبان نے حالیہ عرصہ کے دوران جن اہم شہروں کو فتح کیا ہے، وہاں شرح نمو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اب طالبان قیادت کیلئے یہ سوال ہے کہ آیا وہ اپنے روایتی طریقوں زور و زبردستی اور ظالمانہ پروپگنڈہ کو جاری رکھیں گے ؟کیا یہ ترقی موثر ثابت ہوگییا پھر مہذب اور تعلیم سے لیس شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یہ بھی سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا قدیم پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا جائے گا۔ سابق میں طالبان کی حکمرانی کے دوران افغانستان میں موسیقی (میوزک) پر پابندی تھی اور لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کردیا گیا تھا، خواتین کیلئے برقعوں کے استعمال کو لازمی قرار دیا گیا تھا، اسی طرح مردوں کیلئے داڑھی رکھنا ضروری تھا۔ یہ بھی امکانات پائے جاتے ہیں کہ طالبان میں جو سخت گیر حلقہ ہے، وہ ماضی کے اقدامات و قوانین نافذ کرنا چاہیں گے۔ ویسے بھی کابل میں طالبان کی پریس کانفرنس اور اس میں ان کے ترجمان نے جن خیالات کا اظہار کیا، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان بدل گئے ہیں۔

طالبان 2.0 کا جو ویژن ہے، اس کا تصور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ برادر گروپ کی زیرقیادت ایگزیکٹیو برانچ اور سخت گیر طالبان کی زیرقیادت سلامتی کے اداروں کے درمیان ہر چیز کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ یعنی مختلف شعبوں میں جو اتھاریٹی ہوگی، وہ ان دو گروپس میں تقسیم ہوجائے گی اور یہ سب کچھ طالبان رہنما ہپت اللہ اَخوند زادہ کی قیادت میں ہوگا، کیونکہ وہی اتھاریٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر امارات اسلامی افغانستان، اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح ہی ہوگا جہاں صدر اور ان کے وزراء کی موجودگی کے باوجود تمام اختیارات اور تمام فیصلے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کرتے ہیں۔ اگر طالبان اور تہران کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے کٹر مخالف رہے ہیں۔ 1998ء میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب طالبان اور ایران جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ ایران میں ماہرین ٹیکنالوجی موجود ہیں، لیکن طالبان میں ٹیکنوکریٹس کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عصری معیشت چلانے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں۔ انتظامی اُمور چلانے کیلئے اگر طالبان ، ماہرین کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں ایسے لوگ ملیں گے جو طالبان کے ویژن میں یقین نہیں رکھتے۔ غرض! نئی طالبان حکومت غیرمستحکم ہوگی جہاں مختلف متحارب گروپوں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت ہوسکتی ہے۔ ایسے میں افغانستان 3.0 کیلئے بہتر اُمید رکھنا مشکل ہے۔