طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کا بل راجیہ سبھا میں بھی منظور

,

   

کانگریس کی مخالفت، جے ڈی یو کا واک آؤٹ، مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی تائیدی تقریر
نئی دہلی 30 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) پارلیمنٹ میں ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے کا قانون مباحث کے بعد منظور کرلیا گیا۔ قبل ازیں ایک حساس مسودۂ قانون جو ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ دینے والے مسلم مرد کو مجرم قرار دیتا ہے، آج منظوری کے لئے راجیہ سبھا میں پیش کردیا گیا۔ کانگریس نے اس کے مجرم قرار دینے کے پہلو کی مخالفت کی جبکہ جنتادل (یو) نے بطور احتجاج واک آؤٹ کیا۔ جے ڈی (یو) این ڈی اے کی حلیف ہے۔ مسلم خواتین تحفظ ازدواجی حقوق مسودہ قانون 2019 ء ایوان بالا میں منگل کے دن منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہاکہ مجوزہ قانون سازی سیاسی نقطۂ نظر سے یا ووٹ بینک سیاست کے نقطہ۷ نظر سے نہیں دیکھی جانی چاہئے کیوں کہ اس کا مقصد صنفی وقار، انصاف اور مساوات کو یقینی بنانا ہے۔ یہ انسانیت کا سوال ہے۔ خواتین کے ساتھ انصاف اور ان کی بااختیاری کا سوال ہے۔ صنفی وقار اور مساوات کو یقینی بنانے کا سوال ہے۔ انھوں نے کہاکہ 20 سے زیادہ اسلامی ممالک طلاق ثلاثہ کی مختلف اقسام کو باقاعدہ بناچکے ہیں۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے لیکن بدقسمتی سے کسی نہ کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ مرکزی وزیر نے ارکان پر زور دیا کہ وہ اس کو منظور کریں۔ انھوں نے کہاکہ حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کیا ہے لیکن یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ حکومت سمجھتی تھی کہ امتناع عائد کرنے پر یہ غیر قانونی عمل بند ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

فیصلے کے بعد بھی 574 مقدمے زیردوران ہونے کی اطلاع ملی ہے اور حکومت کے گزشتہ صدارتی حکمنامے کے بعد جس کے تحت اس کو مجرمانہ قرار دیا گیا تھا 101 واقعات اُجاگر ہوئے ہیں۔ مسلم مرد جلی ہوئی روٹی پیش کرنے پر، ترکاری خریدنے رقم طلب کرنے پر اور شوہر کے فحش ویڈیو فلم تیار کرنے کی مخالفت پر بھی طلاق ثلاثہ دینے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے لیکن اس پر عمل آوری نہیں ہورہی ہے۔ اس لئے حکومت قانون سازی پر مجبور ہوگئی ہے کیوں کہ قانون ایک رکاوٹ پیدا کرے گا۔ بعض ارکان کے اندیشوں کا ازالہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون نے کہاکہ اگر بیوی یا اس کا کوئی خونی یا صلبی رشتہ دار ایف آئی آر درج کروائے تو بیوی کے دلائل کی سماعت کے بعد شوہر کو مجسٹریٹ ضمانت پر رہا کرسکتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ یہ قانون لوک سبھا میں منظور ہوچکا ہے۔ راجیہ سبھا اور صدرجمہوریہ کی منظوری کے بعد مسودۂ قانون گزشتہ فبروری میں جاری کردہ آرڈیننس کی جگہ لے گا۔ سپریم کورٹ نے 2017 ء کے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیا تھا۔ بل پیش کئے جانے سے قبل کانگریس کے ٹی سبی رامی ریڈی، سی پی آئی کے بنوئے وسوم، سی پی آئی ایم کے ایلامارم کریم اور کے کے راگیش نے طلاق ثلاثہ پر 21 فبروری کے صدارتی حکمنامہ کو منظور نہ کرنے کی قرارداد پیش کی۔ مباحث میں کانگریس کے ای یائنک نے قانون کے مجرمانہ پہلو کی مخالفت کی۔ خاتون رکا یائنک نے دیگر طبقات کی خواتین سے ترک تعلق پر بھی تشویش ظاہر کی۔ جے ڈی یو کے رشتہ نارائن سنگھ نے کہاکہ بعض سماجی بُرائیوں کی جڑیں بہت گہرائی تک پہنچ جاتی اور انھیں اُکھاڑنے کے لئے وقت لگتا ہے۔ بی جے پی کے مختار عباس نقوی نے کہاکہ یہ قانون مودی حکومت کے خواتین کی بااختیاری کی پابند ہونے کا ثبوت ہے۔ صدرنشین ایم وینکیا نائیڈو نے قانون سازی پر مباحث کے لئے چار گھنٹے کا وقت مختص کیا تھا۔ قائد اپوزیشن راجیہ سبھا غلام نبی آزاد نے بی ے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ طلاق ثلاثہ بل ’’سیاسی مفادات پر مبنی‘‘ ہے اور اِس کا مقصد مسلم خاندانوں کو تباہ کرنا ہے۔ اُن میں قانونی جھگڑے اور مشترکہ دیوالیہ پن کا آغاز ہوجائے گا۔ اُنھوں نے کہاکہ اِس کے نتیجہ میں خاندانوں میں قانونی جھگڑے شروع ہوجائیں گے۔ مسلمان مرد گزشتہ تین سال سے طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ رنگ دینے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ وہ مسلم خواتین ازدواجی حقوق تحفظ بل پر مباحث میں حصہ لے رہے تھے۔