محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ
دور ِحاضر میں خاندانی اور روایتی اقدار کو بڑی حد تک بالائے طاق رکھا جارہا ہے اور اخلاق و آداب کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ماضی میں شوہر اور بیوی کو ایک جان دو قالب کہا جاتا تھا اور یہ ازدواجی رشتہ آخر تک برقرار رہتا تھا۔ شوہر بیوی کا احساس کرتا اور بیوی شوہر کے لئے انتہائی ہمدردی کی حامل ہوا کرتی تھی لیکن معاشرہ کی تبدیلی اور مغربی ممالک کے مضر اثرات نے معاشرہ اور بیوی جیسے رشتہ پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔ افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ چند سال سے ایسے واقعات ہورہے ہیں کہ طلاق یا خلع کے مسئلہ میں اکثر مسلمان عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شوہر کی سختی کی وجہ سے بیوی خلع لینے پر مجبور ہوجاتی ہے یا بیوی کے طرز عمل سے شوہر بدظن ہوکر اسے طلاق دینے تیار ہوجاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اس قسم کے واقعات بہت ہی قابل مذمت ہوتے ہیں، کیونکہ مذہبی اُمور یعنی طلاق، خلع و دیگر مسائل کی یکسوئی کیلئے فریقین عدالت سے رجوع ہوتے ہیں اور بعض اوقات عدالت کا فیصلہ قانون شریعت کے مطابق نہیں ہوتا ہے بلکہ اس مسئلہ پر قانون کے لحاظ سے غور کرتے ہوئے فیصلہ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت میں ہر بات موجود ہے اور اس کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے۔ عدالت کے فیصلے کو اگر مذہبی معاملات میں لایا جائے تو اس سے عدالت کی بیجا مداخلت قرار پاتی ہے۔ حال ہی میں خلع کے معاملے میں من مانی فیصلہ صادر کیا ہے جبکہ دیگر عدالت نے بھی اس فیصلے کو بحال رکھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں بھی لوگ عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں جہاں صرف قانونی زاویہ سے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر خاتون پر ظلم ہوتا ہو تو وہ احتجاج کا حق رکھتی ہے اور دینی اُمور کے ماہرین سے رجوع ہوکر شوہر کی علیحدگی کا جائز طریقہ اپنا سکتی ہے۔ اسلام میں شوہر، بیوی کے درمیان علیحدگی کے لئے تین طریقے متعین ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اول طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے۔ دوسرا خلع جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اس صورت میں بھی بیوی یکطرفہ طور پر خلع نہیں کرسکتی۔ یہ بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے، البتہ اس میں شوہر اور بیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے۔ تیسری صورت فسخ نکاح ہے جو عدالت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ اگر بیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو اب عدالت کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر عدالت نے محسوس کیا کہ واقعی عورت مظلوم ہے تو نکاح فسخ ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اس نتیجہ پر پہونچی کہ عورت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے تو درخواست رد کرسکتی ہے۔ قرآن و حدیث سے زوجین کے درمیان علیحدگی کی یہی تین صورتیں ثابت ہیں لہذا خلع میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر عدالت خلع کی ڈگری جاری کرے گی تو بھی یہ خلع شرعا ً معتبر نہیں ہوگا۔ (فتویٰ)
افسوس کی بات یہ ہے کہ عدالت کے اس قسم کے فیصلوں کی مذہبی اُمور کے ماہرین اور مسلمان اس کی مذمت کرتے ہیں اور فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ آپسی رضامندی کے ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اگر جذبات میں آکر طلاق یا خلع کا فیصلہ کیا جائے گا تو اس صورت میں اولاد پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور اگر عورت تنہا ہو تو اس کی زندگی سخت مصیبت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں شوہر اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض کی پوری طرح تکمیل کرے اور ایسے معاملات میں عدالت کو درمیان میں لانا نہایت ہی افسوسناک بات ہے۔ اس کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی لڑائی اور معاملوں کو باہمی طور پر سمجھوتے سے کام لیتے ہوئے یکسوئی کی جاسکتی ہے، ورنہ ایسے واقعات کا اثر دیگر افراد پر بھی مرتب ہوسکتا ہے جبکہ اس کے ذمہ داروں کو اللہ کے آگے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر طلاق یا خلع کے معاملے میں بعض فریقین کونسلنگ سنٹر سے رجوع ہوتے ہیں اور کونسلنگ میں فریقین یا فریق کو انصاف دلانا ہے لیکن بعض کونسلنگ سنٹر میں فریقین کے ساتھ صلح کی بیٹھک کا مقصد کمزور کو اپنا حق چھوڑنے پر راضی کرانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ اور فریق انکار کرے تو اسے طعنہ دیا جاتا ہے اور جانبداری سے کام لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا نام نہاد کونسلنگ سنٹر س سے اعتماد ختم ہورہا ہے۔ طلاق یا خلع کے معاملے میں ضروری ہے کہ فریقین کی مکمل بات سننے کے بعد ہی غیرجانبدارانہ فیصلہ لیا جائے۔ اگر اہم اللہ کو حاضر جان کر کام کرے تو کچھ حد تک فریقین کو عدالت کا دروازہ کھٹکٹانے سے روکا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر عورت عدالت سے رجوع ہو اور وہاں سے شوہر کی مرضی کے بغیر عدالتی اختیارات سے استفادہ کرتے ہوئے خلع کی منظوری حاصل کرلیں تو یہ کارروائی شریعت کے لحاظ سے جائز قرار نہیں پاتی لہٰذا زندگی بھر کے گناہ سے بچنے کیلئے اور آخرت میں اللہ کی سزا سے بچنے کیلئے احتیاط سے کام لیا جائے اور جذبات کو نظرانداز کردیا جائے۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط کیا جاسکتا ہے۔