ممبئی، اے میرے دل کہیں اور چل جیسے متعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکارطلعت محمود 24 فروری 1924 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور پندرہ سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا۔ان کے والد بھی گلوکار تھے ۔ بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے ، پریم پتراور جہاں آرا جیسی فلموں کے لیے گیت گائے ۔ ان کے یادگار گیتوں میں ‘جائیں تو جائیں کہاں ’، ‘جلتے ہیں جس کے لیے ’، ‘ اے غمِ دل کیا کروں ’، ‘پھر وہی شام وہی غم’، ‘پیار پر بس تو نہیں ’، ‘میرا پیار مجھے لوٹا دو ’، ‘ شامِ غم کی قسم ’، ‘حسن والوں کو’، ‘یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ’، ‘تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی’، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’، ‘میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا’، ‘’، ‘اے میرے دل کہیں اور چل’، ‘سینے میں سلگتے ہیں ارمان، ’، ‘اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا’، ‘راہی متوالے ’، ‘زندگی دینے والے سُن’، ‘دیکھ لی تیری خدائی’، ‘ہم درد کے ماروں کا’، ‘اندھے جہاں کے اندھے راستے ’، ‘کوئی نہیں میرا اس دنیا میں ’، ‘ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا’، ‘دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ’، ‘نبے چین نظر بے تاب جگر’، ‘آئی جھومتی بہار’، ‘ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا’، وغیرہ شامل ہیں۔ طلعت محمود نے چند سال پہلے 9مئی کو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔