ظلم جب حد سے گزرتا ہے فنا ہوتا ہے

   

مودی میجک زوال پذیر… گجرات کا قلعہ بھی کمزور
بہار … اپوزیشن اتحاد کا امتحان

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت سے کیا عوام کا دل بھرچکا ہے ؟ کیا عوام بیزارگی اور اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں؟ ملک کی چار ریاستوں کی پانچ اسمبلی نشستوں کے ضمنی چناؤ کے نتائج دیکھنے کے بعد سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی ۔ امیت شاہ کا کرشمہ کمزور پڑچکا ہے۔ ملک میں گزشتہ 10 برسوں سے مودی میجک کے سہارے بی جے پی کئی ریاستوں میں اقتدار حاصل کرچکی ہے لیکن اب یہ میجک اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ نریندر مودی تیسری میعاد کیلئے وزیراعظم تو بن گئے لیکن یہ فیصلہ عوام کا نہیں تھا۔ عوام نے تو 240 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ دیا تھا لیکن نریندر مودی چند موقع پرست پارٹیوں اور ابن الوقت قائدین کی مدد حاصل کرتے ہوئے تیسری مرتبہ اقتدار پر قابض ہوگئے ۔ عوام اور ان کا فیصلہ عزیز ہوتا اور جمہوری انتخابی عمل کا احترام پیش نظر ہوتا تو بی جے پی عوام کے فیصلہ کے مطابق اپوزیشن میں بیٹھتی۔ وہ اس لئے کہ دو مرتبہ واضح اکثریت کے بعد عوام نے بی جے پی کو 240 نشستوں تک محدود کردیا تھا لیکن اقتدار کا نشہ اور اس کی لالچ کچھ ایسی ہے کہ وقتی طور پر چند تائیدی پارٹیوں کو تیار کرلیا گیا۔ نریندر مودی شائد تاحیات وزیراعظم کا خواب دیکھ رہے ہیں اور ویسے بھی وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب کبھی مودی عوام کے درمیان آئے ، چاہے وہ بیرونی دورے ہوں یا پھر ملک میں عام جلسے و ریالیاں ، ان میں مودی کی ضعیفی صاف طورپر جھلک رہی ہے۔ وہ میک اپ اور ڈریسنگ کے باوجود اپنی ضعیفی کو چھپانے میں ناکام رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اعضاء جواب دینے لگتے ہیں اور مودی کی باڈی لینگویج اور تقاریر میں وہ چستی ، پھرتی اور جولانی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو 2014 سے 2019 تک عروج پر تھی۔ دوسری میعاد میں میک اپ اور ڈریسنگ کام آگئے لیکن تیسری میعاد میں میک اپ کے باوجود ضعیفی جھلک رہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں مودی کے وزیر باتدبیر امیت شاہ بھی تھک چکے ہیں اور تقاریر میں ان کی زبان لڑکھڑانے لگی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ واضح اکثریت کی کمی اور تائیدی پارٹیوں کی بے ساکھیوں نے حوصلہ پست کردیا ہے ۔ عوام سے اکثریت حاصل ہوتی تو طاقت کچھ اور ہوتی۔ یہاں تو روزانہ حلیفوں کے ناز و نخرے برداشت کرنا ہے۔ بات ضمنی چناؤ کی چل رہی تھی۔ چار ریاستوں میں اسمبلی کی پانچ نشستوں پر بی جے پی کا مایوس کن مظاہرہ مودی اینڈ کمپنی کیلئے آئی اوپنر ہے۔ عوام نے بی جے پی کے مقابلہ انڈیا الائنس کو ترجیح دی ہے ۔ گجرات ، پنجاب ، مغربی بنگال اور کیرالا کی پانچ نشستوں میں صرف گجرات کی ایک نشست بی جے پی کو حاصل ہوئی جبکہ عام آدمی پارٹی کو 2 ، کانگریس اور ترنمول کانگریس کے حصہ میں ایک ایک نشست آئی ہے۔ بی جے پی نے تمام پانچ نشستوں پر مقابلہ کیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کو پنجاب اور گجرات کی دو نشستوں پر گزشتہ کے مقابلہ زائد اکثریت سے کامیابی ملی ہے ۔ عام آدمی کے رکن اسمبلی کی بی جے پی میں شمولیت کے بعد اس حلقہ کا ضمنی چناؤ ہوا جس پر عوام نے پہلے کے مقابلہ دوہری اکثریت سے پارٹی کو کامیابی دلائی ۔ پنجاب میں اسمبلی چناؤ 2027 میں ہیں اور اروند کجریوال ضمنی چناؤ کو سیمی فائنل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے سبب گجرات بی جے پی کے ناقابل تسخیر قلعہ میں تبدیل ہوچکا تھا لیکن اب وہاں بھی قدموں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو کمزور کرتے ہوئے گجرات میں اقتدار پر قبضہ ہے لیکن اب آئندہ خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ جس گجرات سے مودی ۔امیت شاہ دہلی کے تخت شاہی تک پہنچے ، آج وہیں کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔ پنجاب میں بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی۔ کیرالا میں کانگریس اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کامیاب رہے۔ بی جے پی آئندہ اسمبلی چناؤ میں مغربی بنگال میں تشکیل حکومت کا خواب دیکھ رہی ہے جو شائد خواب بن کر ہی رہ جائے گا ۔ مئی 2026 تک ملک میں پانچ ریاستوں اور ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ پوڈی چیری کے اسمبلی انتخابات ہیں۔ جن 6 ریاستوں میں آئندہ چند ماہ میں انتخابات ہیں ، ان میں صرف آسام میں بی جے پی حکومت ہے جبکہ بہار اور پوڈی چیری میں بی جے پی مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ کیرالا میں بائیں بازو ، بنگال میں ترنمول کانگریس اور ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے سرکار ہے۔ بہار میں اکتوبر جبکہ آسام ، مغربی بنگال ، کیرالا ، ٹاملناڈو اور پوڈی چیری میں مئی 2026 میں چناؤ ہوں گے۔ اگر مودی کی مقبولیت کا گراف اسی طرح گرتا رہا تو ہوسکتا ہے کہ بہار اور آسام میں بھی جے پی شکست سے دوچار ہوگی۔ بی جے پی نے ملک کی کئی ریاستوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے ، وہ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ زیادہ تر الیکشن کمیشن کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔ مہاراشٹرا کے الیکشن میں بی جے پی کی دھاندلیوں کو الیکشن کمیشن کی سرپرستی کے انکشاف کے بعد دیگر ریاستوں کے نتائج پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کانگریس قائد راہول گاندھی کے سوالات سے بوکھلایا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
نریندر مودی اور امیت شاہ نے بہار میں انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ بہار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی نے پہلگام دہشت گرد حملہ کے بعد ملک کے عوام میں بے چینی اور ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر بہار میں انتخابی ریالی کو ترجیح دی ۔ دہشت گردوں کی تلاش اور ان کے خلاف کارروائی سے زیادہ مودی کے نزدیک بہار میں کامیابی ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی کسی بھی موقع کو سیاسی فائدہ میں تبدیل کرنے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے پہلگام حملہ کی آڑ میں بہار میں بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ کی کوشش کی ۔ ملک کی دوسری بڑی ریاست بہار قومی سطح پر تشکیل حکومت میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ نریندر مودی کو سہارا فی الوقت بہار اور آندھراپردیش کا ہے ۔ مودی کسی بھی طرح نتیش کمار کو چھوڑنا نہیں چاہتے حالانکہ نتیش کمار ملک کے واحد سیاستداں ہیں جو موقع پرستی کے معاملہ میں ایوارڈ حاصل کرسکتے ہیں ۔ وہ اقتدار کے لئے کبھی بھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر پرانے دوست لالو پرساد سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بہار کی ترقی کیلئے نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن تھاما ہے۔ سماج وادی اور سیکولر نطریات کے حامل نتیش کمار سے بہار کے اقلیتوں کو امید نہیں تھی کہ وہ زعفرانی پرچم کو تھام لیں گے ۔ نتیش کمار اپنی عمر کے جس حصہ میں ہیں ، وہ ذہنی توازن کھونے لگے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں دو ایسے ویڈیو سوشیل میڈیا میں وائرل ہوئے جو ان کے ذہنی توازن بگڑنے کا ثبوت ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سیکولر ووٹ کی تقسیم سے بی جے پی اور جنتا دل یونائٹیڈ اتحاد کو فائدہ ہوا۔ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔ اگر انڈیا الائنس متحدہ طور پر مقابلہ کرتا ہے اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو محاذ میں شامل کیا جائے تو بہار سے نتیش کمار حکومت کا صفایا یقینی ہے۔ بہار کا مستقبل سیکولر پارٹیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں فرقہ پرستی سے مقابلہ کو ترجیح دیں گی یا پھر اپنے مفادات پر قائم رہتے ہوئے ووٹ کی تقسیم کے ضمہ دار بنیں گی۔ یہ سیکولر پارٹیوں کا حقیقی امتحان ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں کئی ریاستوں کے لوک سبھا حلقوں میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کا بی جے پی کو راست فائدہ ہوا۔ بی جے پی کے کوئی کارنامے ایسے نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹ حاصل کرسکیں۔ لہذا فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کو مشتعل کیا جاتا ہے اور سیکولر ووٹ کی تقسیم پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ اگر بہار بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر ملک میں بی جے پی کے زوال کا آغاز ہوجائے گا۔ بی جے پی میں داخلی سطح پر مودی اور امیت شاہ کے خلاف مضبوط محاذ تیار ہورہا ہے لیکن وہ کھلے عام بغاوت کے موقف میں نہیں ہیں۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا کی میعاد مکمل ہوگئی لیکن نئے صدر کا انتخاب نہیں کیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں اختلافات کے نتیجہ میں نئے قومی صدر کا انتخاب تعطل کا شکار ہے۔ پارٹی میں نتن گڈکری کو نظر انداز کردیا گیا اور راجناتھ سنگھ بھی مرکزی کابینہ میں شمولیت پر مطمئن ہیں۔ بی جے پی میں سینئر قائدین کو نظرانداز کرنے کا رجحان گزشتہ 10 برسوں میں شدت اختیار کرچکا ہے تاکہ مودی ۔ امیت شاہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے لیکن یہ رجحان خطرناک ثابت ہوگا اور کسی بھی وقت قیادت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
آپ ہر دور کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں
ظلم جب حد سے گزرتا ہے فنا ہوتا ہے