ظلم و ناانصافی کیخلاف احتجاج میں خواتین کا قائدانہ رول

,

   

صحافت میں نمائندگی میں اضافہ کی ضرورت، اردو یونیورسٹی کے وینبار میں عارفہ خانم، عامر علی خاں اور محمود صدیقی کا خطاب

حیدرآباد۔ موجودہ دور میں مظالم، ناانصافی اور زیادتیوں کو درج اور ریکارڈ کرنے والوں کی پہلی قطار میں خواتین موجود ہیں۔ احتجاج کے مورچوں پر ڈٹی ہوئی خواتین گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کے چھوٹے چھوٹے چراغوں کے مانند ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز صحافی محترمہ عارفہ خانم، ’’دی وائر‘‘ نے آج مولانا آزاد نیشنل اْردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام ویبنار ’’اردومیڈیا میں صنفی رپورٹنگ۔ چیلینجز اور مواقع‘‘ کے راؤنڈ ٹیبل کے دوران کیا۔ اس ویبنار کا اہتمام شعبۂ ، مرکز مطالعاتِ نسواں اور شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت ، مانو کی جانب سے کیا گیا، جبکہ پاپولیشن فرسٹ، اقوام متحدہ آبادی فنڈ اور ناروین ایمبیسی نے اس کے انعقاد میں تعاون کیا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے صدارت کی۔ محترمہ عارفہ خانم نے مزید کہا کہ اسکرین پر خواتین کی موجودگی مارکٹ ڈیمانڈ کی مرہون منت ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خود خواتین انہیں ملے اختیار کا کیسے استعمال کر پاتی ہیں؟ ممتاز خاتون صحافی نے شکایت کی کہ فیصلہ سازی میں عورتوں کا کوئی رول نہیں ہے۔ مردانہ بالادستی کو بڑھاوا دینے میں خود خواتین بالواسطہ طور پر مددگار بن رہی ہیں۔ جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست، حیدرآباد نے سوشیل میڈیا کو خواتین کے لیے نیا میدان عمل قرار دیا اور اعتراف کیا کہ روایتی میڈیا بشمول اردو میڈیا میںمسلم خواتین کی نمائندگی نسبتاً کم ہے۔ کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ تقاضوں کی تکمیل میں توازن مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے سیاست اخبار کی تاریخ اور حیدرآباد کے مسلمانوں کے لیے اخبار کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حق گوئی اور بیباکی اخبار کی پالیسی ہے۔ مسلمان اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں، ان کے حق کے لیے آواز اٹھانا قوم دشمنی نہیں ہے۔ انہوں نے قرآن کے سورہ قلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر صحافی کی یہ ذمہ داری ہے کہ سچ ہی کی ترجمانی کرے۔ انہوں نے عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ اور محبوب حسین جگر کیریئر گائیڈنس سنٹر کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں بالخصوص خواتین کی معاشی ترقی کے لیے اخبار سیاست کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے صدارتی خطاب میں کہا کہ جمہوریت کی خوبی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ضرورت ہے کہ میڈیا بے آوازوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائے۔ ہمارے سماج میں شادی کے رقعوں میں لڑکیوں کے نام نہیں دیئے جاتے جبکہ نام کا پردہ نہیں ہے۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے نام تک جانتے ہیں۔ ہمیں حقیقت پسندی کے ساتھ خبر کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ خبروں کو اور تجزیوں کو سمجھ سکیں۔ خواتین کو ہی نہیں بلکہ پسماندہ طبقات کو بھی تعلیم دیتے ہوئے با اختیار بنانا چاہیے۔
(سلسلہ صفحہ 5 پر)