ظہران ممدانی کی جیت

   

کمیونسٹ ، سوشلسٹ اور مسلم مخالف رجحان کو شکست

رام پنیانی
میں ایک مسلمان ہوں، میں ایک ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہوں اور سب سے بڑھ کر میں اس سب کیلئے معذرت خواہی سے انکار کرتا ہوں (ظہران ممدانی کے خطاب فتح سے اقتباس)۔ امریکہ میں نیویارک سٹی کے میئر انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممدانی نے ایک تاریخ رقم کی۔ انہوں نے اپنی کامیابی کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ اگر آپ میں کچھ کرنے کا عزم و حوصلہ ہو، ارادے نیک اور پختہ ہوں تو کوئی بھی بااثر طاقتور یہاں تک کہ ارب پتی شخصیت بھی آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی۔ آپ کو شکست دینے کی لاکھ کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بہرحال ظہران ممدانی نے 34 سال کی عمر میں صرف اپنے مقابل امیدواروں کو شکست نہیں دی بلکہ انہوں نے اس سوچ و فکر کو بھی ہرادیا جو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک امریکی معاشرے میں فروغ دے رہے تھے۔ ظہران ممدانی نے ایک بڑے امریکی اور عالمی شہر نیویارک کا میئر منتخب ہوکر امریکی سیاست دانوں سے لے کر عالمی سطح پر بھی سیاسی شخصیتو ں اور میڈیا کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا اور ان کی کامیابی کو دیکھا جائے تو کئی ایک زاویوں سے ان کی جیت یا کامیابی غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ انسانی معاشرہ کی ان قدروں کی کامیابی ہے جو کمیونٹی کے خوابوں کی تکمیل کی طرف پیشقدمی کرتی ہے۔ اس کامیابی کو کئی ایک زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر آپ نیویارک میئر کے انتخابات کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ ابتداء میں ظہران ممدانی کی انتخابی مہم معمولی طور پر شروع ہوئی اور ناقابل تسخیر یا ناقابل شکست کامیابی پر اختتام کو پہنچی اور اسی یادگار و تاریخی کامیابی تک پہنچنا نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابل غور ہے اور اس کامیابی کے ایک پہلو جس پر خاص غور ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اسے اپنی جیت کی تقریر (خطابِ فتح) میں یہ کہنا پڑا کہ وہ ایک مسلمان اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہے۔ اپنی پہچان بنا چکا تھا جو پرانی نوآبادیاتی طاقتوں کی وراثت سنبھال رہا تھا۔ دوسری طرف یو ایس ایس آر بھی ان ملکوں کو ان کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کی پیشکش کررہا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی مثال یہاں بالکلیہ طور پر مناسب ہے جہاں یو ایس ایس آر نے ہندوستان کی بنیادی صنعتیں اور بنیادی سہولتیں بنانے کی پیشکش کی، وہیں امریکہ زیادہ رغبت اس بات میں رکھتا تھا کہ یہاں تیار شدہ مصنوعات فروخت کرے بجائے اس کے کہ بنیادی صنعتیں قائم کرنے میں مدد کرے۔ اس سے آپ اور ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ میں بھی کمیونزم کے خلاف دشمنی میکارتھی ازم کی صورت میں سامنے آئی جو امریکی انتظامیہ سے کمیونسٹوں کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ سینیٹر جوزف میکارتھی نے ایک بڑی سطح کے تفتیشی عمل کے ذریعہ شہرت حاصل کی تھی جس میں اہم اور حساس عہدوں پر فائز کمیونسٹوں کا پتہ چلاکر انہیں پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان میں بھی دائیں بازو نے بھی اس روش کی پیروی کی اور ویٹنام جیسے ملکوں کے خلاف امریکی پالیسیوں کی بھرپور تائید کی لیکن دنیا نے دیکھا کہ ویٹنام میں امریکی افواج کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور کمیونزم کے حامی ویٹنام میں امریکہ کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ دوسری طرف ہندوستان میں دائیں بازو کی آر ایس ایس۔ بی جے ایس (بھارتیہ جن سنگھ) نے امریکہ کی طرح کمیونسٹ مخالف موقف اپنایا اور ان ہی خطوط پر کام کیا جس پر امریکہ نے کام کیا تھا۔ راہول ساگر اس بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہندو مہا سبھا اور جن سنگھ جیسی قوم پرست جماعتوں و تنظیموں نے امریکہ کی زیرقیادت کمیونسٹس مخالف موقف کی بھرپور حمایت کی، خاص طور پر سرد جنگ کے دوران ان تنظیموں نے یہ موقف اختیار کیا۔ پہلے مسلمان، دوسرا عیسائی اور تیسرے کمیونسٹس، ان تینوں سے ہندو قوم کوخطرات لاحق ہیں۔ بہرحال ہندو تنظیموں کی اس روش کے نتیجہ میں ہی کمیونسٹ و سوشلسٹ مخالف جذبات و احساسات پیدا ہوئے اور اسے فروغ بھی حاصل ہوا۔ اگر ہم اسلامو فوبیا اور مسلمانوں سے خوف ان پر شک و شبہ پر غور کرتے ہیں، خاص طور پر 9/11 کے بعد کے حالات پر تو پتہ چلتا ہے کہ ظہران ممدانی کے والد پروفیسر محمود ممدانی کی ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ Good Muslim – Bad Muslim جس میں صاف صاف طور پر بتایا گیا کہ القاعدہ اور اس کے قبیل کی تنظیموں کی جڑیں تیل سے مالامال علاقوں پر کنٹرول سے متعلق امریکی پالیسیوں میں پیوست ہیں اور امریکہ نے ان دہشت گرد گروپوں کی عسکری تربیت کیلئے 8 ہزار ملین ڈالرس سرمایہ مشغول کیا۔ امریکی میڈیا کے پروپگنڈے کے نتیجہ میں دنیا کے تمام مسلمانوں پر انگلیاں اُٹھنے لگی۔ ہندوستان میں بھی یہ پروپگنڈہ کام کرگیا، ویسے بھی پہلے ہی سے یہاں مسلمانوں کے خلاف تعصب و جانبداری کا ماحول بڑی تیزی سے پنپ رہا تھا اور ’’پھوٹ ڈالو، تقسیم کرو‘‘ کی پالیسی پر یہاں عمل ہورہا تھا۔ فرقہ پرست تنظیموں اور میڈیا نے مسلم بادشاہوں کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار اور دولت کو اہمیت دی۔ بہرحال ظہران ممدانی نے کمیونسٹ۔ سوشلسٹ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے سے متعلق پروپگنڈہ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران بے اثر کردیا۔