عادل آباد‘اردوگھر ‘شادی خانہ کی آمدنی سے فلاحی کام ضروری

   

غریب ونادار مسلم لڑکیوں کی شادیوں میں تعاون اہم مصرف‘ اقلیتی قائدین کو توجہ دینے کی ضرورت
عادل آباد۔20؍ اپریل (محبوب خاں کی رپورٹ) عادل آبادمیںاردو گھر‘شادی خانہ ‘ پتلی باولی پر تقریباً30سال قبل تلگودیشم کے دور حکومت میں متحدہ ریاست آندھراپردیش چیف منسٹرمسٹر این چندرا بابونائیڈو نے تلگودیشم پارٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی مسلم قائدین کی غیر معمولی دلچسپی کی بناء پرتعمیرکیاگیا۔ تعمیرکے دوران غریب مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی تھی کہ اردوگھر شادی خانہ مسلم غریب طبقہ کی تقریبات کیلئے مفت فراہم کیا جائے گا جبکہ اس کے برعکس تین ہزار روپئے ابتداء میںمعاوضہ ایک تقریب کا وصول کیاگیا بعد ازاں اس میں اضافہ کرتے ہوئے پانچ ہزار روپئے کرایہ حاصل کیا جارہا ہے ۔ شادی خانہ میں کراکری کے مسائل کو دور کرنے نرمل کے تلگودیشم قائد مسٹر بابر بیگ اپنا مالی تعاون کرتے ہوئے کراکری کاسامان عطیہ کیا مقامی افراد اور اردو گھر شادی خانہ انتظامی کمیٹی نے عادل آبادکے دیگر دینی مدارس کونظرانداز کرتے ہوئے کراکری کے ذریعہ ہونے والی آمدنی کو ایک مخصوص دینی مدرسہ کو فراہم کرنے سے اتفاق کیا جس کاسلسلہ تاہم برقرار ہے ۔ شادی خانہ کے قیام کے بعد کئی کمیٹیاں تبدیل ہوتی گئیں‘ مسلم سیاسی قائدین اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کمیٹیوں کا قیام عمل میںلاتے رہے ۔ یہاں غورطلب امر یہ ہے کہ شادی خانہ کی 30 سال کے دوران حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا ہوا ؟ اس پرکسی بھی مسلم قائدین و عادل آباد کے دانشوروں کی توجہ کیونکرمبذول نہیںہورہی ہے ۔ اردوگھرشادی خانہ365 دن میںصرف ایک ہفتہ رمضان میںخالی کرتا ہے دیگر ایام میںمنعقدہونے والی تقریبات کی رقم سالانہ15تا 20 لاکھ روپئے حاصل ہوتی ہوگی ‘اسی طرح کراکری کاکریہ سات تا دس لاکھ روپئے دینی مدرسہ کو فراہم ہوسکتا ہے ۔تقریباً30سال کی شادی خانہ کی آمدنی پانچ تا سات کروڑروپئے کا حساب آخرکس کے پاس موجود ہے ۔ شادی خانہ سے ہونے والی آمدنی سے قوم کی فلاح و بہبودکیلئے کیاکام انجام دئیے گئے ہیں۔ شادی خانہ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہرسال عادل آباد کے غریب و نادار لڑکیوں کی اجتماعی شادیاں انجام دی جاسکتی ہیں۔ پڑوسی ریاست مہاراشٹرا کاتعلقہ کنوٹ جہاں پرمقامی افراد کے تعاون سے ہرسال 50تا 70اجتماعی شادیاں انجام دی جاتی ہیں‘جوجہیز کی لین دین والی لعنت کے بناء پرمستقر عادل آباد کے ہرمحلہ میںبے شمار غریب و نادار لڑکیاں شادی سے محروم ہیں۔ شال پوشی ‘ گلپوشی اور تصویرکشی تک محدود رہنے والے مسلم قائدین کے علاوہ عادل آباد کے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہا ردو گھرشادی خانہ کا حساب دیکھیں اوراس کی آمدنی کے ذریعہ غریب ونادارمسلم لڑکیوںکی شادی انجام دینے کا فلاحی کام انجام دیں۔ ضلعی حکام مستقر عادل آباد میںحکومت کی جانب سے مزید ایک شادی خانہ تعمیر کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ قوم کی رہنمائی کرنے والے قائدین ‘دانشور افراد دلچسپی لیتے ہوئے اردو گھر شادی خانہ سے ہونے والی آمدنی سے غریب نادار مسلم لڑکیوںکی اجتماعی شادیاںکرانے میںاپنے آپ کو پیش کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کی خدمت کو ضرور پسند کریںگے ۔