عاشق اردو ۔ امیتابھ بھاگل

   

محمد ریاض احمد

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
حضرت داغ کا یہ شعر یقینا کی ساری دنیا میں اردو زبان کی مقبولیت کی عکاسی کرتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہیکہ دنیا کے کونے کونے میں اردو کی نہ صرف بستیاں آباد ہیں بلکہ اردو کو چاہنے، اردو بولنے اور سننے کے خواہاں رہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ویسے بھی زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، زبانوں کو مذاہب اور فرقوں سے جوڑنا تعصب کے سواء کچھ نہیں۔ جہاں تک اردو کا سوال ہے یہ ایسی زبان ہے جسے برصغیر ہند و پاک اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ بھی بناء کسی ہچکچاہٹ کے اپنی زبان کہہ سکتے ہیں۔ اردو زبان دراصل مختلف زبانوں سے ملکر بنی ایک ایسی شیریں زبان ہے جس کی مٹھاس کے سب قائل ہیں اور جس نے بے شمار تہذیبوں کو خود میں سمایا ہوا ہے۔ زبان اردو نے اپنے دامن میں بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات علاقہ و سرحد سب کو پناہ دی ہے۔ اس نے اپنے چاہنے والوں کو جہاں چاہت سے نوازا وہیں ان کے قلوب و اذہان کو محبت و مروت، رحمدلی و ہمدردی، ایثار و خلوص، سادگی اور انسانیت جیسے اوصاف حمیدہ سے کوٹ کوٹ کر بھردیا، یہی وجہ ہے کہ تعصب و جانبداری کے مرض کہنہ میں مبتلا عناصر خاص کر مفاد پرست سیاستداں کبھی خود کو بچانے تو کبھی مخالفین کو شرمسار کرنے کے لئے اردو شاعری کا سہارا لیتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی مقدس سرزمین کو جہاں خسرو کی پہیلیوں نے محبت کے بندھن میں باندھے رکھا میرکے کلام نے اس بندھن کو محفوظ کیا، غالب نے جہاں ہر کسی کو اردو کا دیوانہ بنایا وہیں ولی دکنی نے ہندوستانیوں کو زندگی اور کائنات کے حُسن احساسات و جذبات سے روشناس کروایا۔ سودا کے قصیدے جہاں ہندوستانیوں کے ذہنوں و قلوب میں اتر گئے وہیں میر نے سب کو اردو کی عظمت سے واقف کروایا۔ داغ نے اردو کی چاشنی اس کی مٹھاس حساسیت اور انسان دوستی کو عاشقان اردو میں تقسیم کرنے کا کام کیا انہوں نے دنیا کو بتادیا کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے۔ غالب نے تو اردو شاعری کو اس قدر بلندی عطا کی کہ ان کی موت کے 151برسوں بعد بھی دنیا بھر میں ان کے اشعار کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ حالی کے باعث ساری دنیا نے دیکھا کہ اردو مروت کی مورت ہے، آج ہمارے ملک کی فضاء میں جو ترانہ ہند سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا گونجتا ہے اقبال نے یہ ترانہ لکھ کر دنیا کو بتادیا کہ یہ اردو ہی کا کمال ہیکہ ہندوستان کی شان و وقار کے اظہار کے لئے کسی اور زبان میں ایسا حسین خیال اب تک پیش نہیں کیا جاسکا۔ غرض مومن ذوق جکپست فانی اکبر جگر سے لیکر ساحر لدھانوی فراغ گورکھپوری، فیض، جون ایلیا، بشیربدر راحت اندوری، سب کے سب نے اپنی نظموں، غزلوں نغموں کے ذریعہ ایک دنیا کو اردو کا دیوانہ بنادیا۔ اردو کے ایسے ہی دیوانوں میں سماجی جہدکار، سماجی محقق، غیر معمولی فن کے حامل فوٹوگرافر اور شاعر امیتابھ بھاگل شامل ہیں۔ ایسے وقت جبکہ اردو زبان کو مسلمانوں سے جوڑ کر اس کے ساتھ بدترین متعصبانہ رویہ اپنایا جارہا ہے امیتابھ بھاگل جیسی شخصیتوں نے آگے بڑھ کر اسے فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے امیتابھ بھاگل سے انٹرویو لیا جس میں مختلف امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ آپ کو بتادوں کہ امیت بھاگل حکومت اترپردیش کے ایک اعلیٰ عہدہ دار تھے لیکن شخصی وجوہات کے باعث انہوں نے استعفے دے کر خود کو سماجی کاموں ، سماجی تحقیق، فوٹوگرافی اور اردو ہندی شاعری کے میدانوں میں مصروف کرلیا۔ ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ Zoom app کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم قدردان اردو و عاشقان اردو کو اردو سکھا رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر زوم پلیٹ فارم پر چھوٹے چھوٹے گروپس بنائے ہیں اور ہرماہ 10 تا 12 کلاسیس یا اجلاس کا اہتمام کرتے ہیں جس میں مرد و خواتین شرکت کرتے ہیں جہاں امیتابھ بھاگل ان لوگوں کو اردو شعر و شاعری سے واقف کرواتے ہیں۔ اشعار کی تشریح کرتے ہیں الفاظ کے معنی و مطالب سمجھاتے ہیں امیت بھاگل سے استفادہ کرنے والے نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک بلکہ امریکہ، یوروپ کے دوسرے ملکوں میں بھی مقیم ہیں اور یہ مرد و خواتین 40-50 سال عمر کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اردو غزل سے بہت دلچسپی ہے اور اردو کلام اور اس کی مٹھاس، شائستگی و شگفتگی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں امیتابھ بھاگل نے جو نینی تال اور دہلی میں رہتے ہیں بتایا کہ ایک سال سے وہ Zoom app کے ذریعہ اردو ادب و شاعری سمجھانے میں سرگرم ہیں۔ دراصل چند IiTIANS نے انہیں ان کے ساتھ مل کر فروغ اردو کا کام کرنے کی پیشکش کی جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ ان کی کلاسس میں غالبؔ، فیض احمد فیضؔ، میرؔ، داغؔ ، مومن سودا، اصغر گونڈوی، ولی دکنی، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی، جون ایلیا، عدم گونڈوی، جانثار اختر جیسے شعراء کے کلاسس پر بحث ہوتی ہے۔ اس کے معنی و مطالب بتائے جاتے ہیں۔ اشعار کی تشریح کی جاتی ہے۔ امیت بھاگل کے مطابق بے شک آج زندگی کے ہر شعبہ میں اردو کا استعمال ہوتا ہے، لیکن اسے اردو کا نام نہیں دیا جاتا اردو اور اردو شاعری کو بچانے کی ضرورت ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ختم ہو رہی ہے۔ اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی جہاں کی قومی زبان اردو ہے اردو شاعری ختم ہو رہی ہے۔ ان حالات میں ہم سب کو مل کر فروغ اردو کا کام کرنا چاہئے۔ اور نئی نسل کو اردو زبان اس کی اہمیت سے واقف کروانا چاہئے۔ بہرحال امیتابھ بھاگل جس طرح اردو کو فروغ دینے کا کام کررہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ حالانکہ وہ داغ کے اس شعر میں پورا یقین رکھتے ہیں: ۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہدو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
قارئین امیتابھ بھاگل ایک طرف باغ اردو کی آبیاری کررہے ہیں دوسری طرف قدرتی حُسن کو اپنے کیمروں میں قید کرنے کے فن یعنی فوٹو گرافی میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ریوا کے شاہی خاندانی پس منظر رکھنے والے امیتابھ بھاگل بتاتے ہیں کہ انہوں نے فوٹو گرافی کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی بلکہ شوق نے انہیں ایک اچھا فوٹو گرافر بنا دیا۔ ان کی تصاویر میں آرٹ سائنس کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی لی ہوئی تصاویر دیکھنے والوں کو ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کردیتی ہیں۔ رنگ برنگی تتلیاں، نظروں کو حیران کرنے والے قدرت کی تخلیقات، چرند پرند، فن تعمیر کی شاہکار تاریخی عمارتیں، گنبدیں، بلند و بالا مینار، سبز چادر اوڑھے ہوئے وسیع و عریض میدان، انسانی عقل کو حیران کرنے والے پہاڑ، طلوع و غروب آفتاب کے حسین مناظر فن عکس بندی یا فوٹو گرافی میں ان کی مہارت کو ظاہر کرتی ہیں۔
[email protected]