عالمی اور ملکی سطح پر ظالموں کی پزیرائی

,

   

گزشتہ سال 3/دسمبر 2018ء کو سیانہ حلقہ کے گاؤں مہاؤ کے جنگل میں مبینہ گئو کشی کا حوالہ دیتے ہوئے تشدد بھڑکایا گیا تھا۔ اسی دن قریب ہی منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماع کا آخری دن تھا اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں ٹکراؤ کی نوبت نہ آجائے۔ شرپسندوں نے ایک ٹریکٹر پر گوشت کے ٹکڑے اکھٹا کئے اور چنکراوٹھی پولیس چوکی کے قریب ہائی وے پر جام لگاکر ہنگامہ آرائی کی۔ ایسے میں سیانہ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر انسپکٹر سبودھ کمار نے نہ صرف بھیڑ کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی بلکہ حالات کو بگڑنے سے بڑی حد تک روکے رکھا مگر ان کی اس کارروائی سے ناراض شرپسندوں نے خود ان ہی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ ان پر کلہاڑی سے حملہ کیا گیا اور پھر گولی مار کر ان کو ہلاک کر دیا گیا۔ انسپکٹر سبودھ کمار سمیت 2/افراد کے قتل کا سبب بننے والے تشدد کے کلیدی ملزمین جیتو فوجی اور شیکھر اگروال سمیت 7/ملزمین کو سنیچر کے دن مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ضمانت پر جیل سے رہا ہونے کے بعد ان ملزمین کا گاؤں میں ہیرو کی طرح پھولوں کے ہار پہناکر زبردست استقبال کیا گیا اور ان کے رہائی کی خوشی میں بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم اور جئے شری رام کے نارے بلند لگائے گئے۔ ملکی سطح پر ہجومی تشدد کے ذریعے بے گناہ مسلمانوں اور دلتوں کو پیٹ پیٹ کر سرعام دن کے اجالے میں موت کے گھاٹ اتارنے والے گئو رکشکوں کے بدمعاشوں، غنڈوں اور ظالموں کی اکثریتی آبادی کی جانب سے کھلے عام ان کی حوصلہ افزائی اور پزیرائی کی جارہی ہے اور ان مجرموں کو ہندو سماج کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

عالمی سطح پر گئو رکشکوں کے غنڈوں کے آئیڈیل سرغنہ اور 202ء میں گجرات کے بھیانک فسادات (ہولوکاسٹ) میں مسلمانوں کی نسل کشی انجام دینے والے اور آرٹیکل 370/کو ہٹانے کا بہانہ بنا کر وہاں کے مسلمانوں کے لئے کشمیر گھاٹی کو انسانی جیل میں تبدیل کرنے والے نریندرمودی کو مسلم ممالک کے ذریعے نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم وتشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پوری دنیا میں احتجاج ہورہے ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں سرپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور ہمارے ملک کے نوجوان آئی اے ایس آفیسر کنن گوپی ناتھ نے کشمیری مسلمانوں پر ہورہے ظلم وزیادتی اور غیر انسانی سلوک کئے جانے پر احتجاج بلند کرتے ہوئے نوکری سے استعفی دے دیا اور ببانگ دہل کہا کہ وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے بے غیرت اور عیاش پسند ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زائد النہیان اور بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے مودی کو اپنے اپنے ملک کے سب سے بڑے شہری اعزازات سے نوازا ہے۔ مودی کو کوئی اور حکومت اگر اعزاز سے نوازے تو اس پر اتنا اعتراض نہیں ہوتا لیکن مسلم مملکت کے ذریعے مودی کو نوازا جانا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ مسلمانوں کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ ظالم کی اعانت کرے اور اس کا ساتھ دے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرے۔ جان بوجھ کر کسی ظالم کی تائید کرنا اور اس کی غلط کاریوں پر نہ صرف یہ کہ پردہ ڈالنا بلکہ ان کی صحت اور جواز کے لیے زبان اور قلم سے تقویت پہنچانا اور پھر انہیں اعزازات سے نواز کر ان حوصلہ افزائی اور پزیرائی کرنا ایک ایسا برا فعل ہے جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمران خیر سے مسلمان ہی ہیں۔ کیا ان دونوں حکمرانوں پر مودی کے ذریعے مسلمانوں کئے گئے ظلم وتشدد عیاں نہیں ہیں؟ نہیں بلکل عیاں ہیں انہوں نے جانتے بوجھتے مودی کو اعزازات سے نوازا ہے۔ یہ دونوں حکمران سن لیں کہ حضرت اوس شرجیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی ظالم کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اس کا ساتھ دیتا ہے حالانکہ وہ اسے ظالم جانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ (مشکوہ کتاب اآلادب باب الظلم)

محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتا کروز، ممبئی