عالمی برادری کو شرمسار کرنے والی دو تصاویر

   

محمد ریاض احمد
پچھلے ہفتہ عالمی سطح پر دو تصاویر منظر عام پر آئیں اور ان دونوں تصویروں نے اس کرۂ ارض کے کونے کونے میں بسے ہوئے انسانوں کے اذہان و قلوب و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خاص طور پر اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں ، امریکہ،روس، برطانیہ، فرانس، چین جیسی بڑی طاقتوں کو حقوق انسانی کے تحفظ میں ناکامی پر شرم بھی دلائی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ خود کے انسان ہونے کا جھوٹا بھرم رکھنے والوں کو ان تصاویر نے شرمسار کردیا۔ راقم الحروف یہ دعویٰ سے کہہ سکتا ہے کہ اگر کسی انسان کے سینے میں دھڑکنے والے دل میں تھوڑی سی انسانیت بھی باقی رہے تو یقینا ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد کم از کم اس کی زبان سے ’’اُف میرے خدایا‘‘ جیسے الفاظ ضرور نکلیں گے اور ہاں وہ انسانیت کا حامی اور انسانیت میں یقین رکھنے والا ہو تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں گے۔ بہرحال ان دونوں تصاویر کو بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں نے عالمی اداروں، حکومتوں، بڑی طاقتوں (سپر پاورس)، حقوق انسانی کی تنظیموں کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ آخر کب تک مادی فوائد کیلئے ظلم و جبر، درندگی، ناانصافی، حق تلفی، تعصب و جانبداری، قتل و غارت گری، تباہی و بربادی، نسل کشی و نسل تطہیر کے انسانیت دشمن طریقے اختیار کرو گے؟ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر کب تک قتل و خون کا بازار گرم رکھوگے؟ کب تک قدرتی وسائل پر اپنے خونخوار پنجہ گاڑھنے کیلئے عیاری و مکاری ، دھوکہ دہی اور جھوٹ کا سہارا لیتے رہو گے؟ نیو ورلڈ آرڈر کے قیام کیلئے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’دین اسلام‘‘ کو کب تک بدنام کرتے رہو گے؟ کب تک حکمرانوں کو اپنا غلام بناکر مسلم اور غریب ملکوں کو لوٹتے رہو گے؟ کب تک حیاتیاتی جنگ کے ذریعہ حکومتوں اور عوام کو بے بس و مجبور بناکر ان کے گلوں میں اپنی غلامی کا طوق ڈالتے رہوں گے۔ کب تک دنیا میں مالیاتی دہشت گردی کے ذریعہ اسے ناپاک مقاصد کی تکمیل کرتے رہو گے اور کب تک خونِ مسلم کو بہاتے رہو گے۔ کب تک امت مسلمہ کے مقامات مقدسہ کو اپنی نفرتوں کا نشانہ بناتے رہوں گے؟ اور کب تک اس کرۂ ارض کی ناجائز مملکت اسرائیل کی دہشت گردی ، عیاری و مکاری کو برداشت کرتے رہوگے؟ کب تک بشارالاسد کو شام جیسی مقدس سرزمین کو تہہ و بالا کرنے کی اجازت دیتے رہو گے؟ کب تک جھوٹ کی بنیاد پر مسلم ملکوں کو تباہ اور برباد کرتے رہو گے؟ کب تک پھول جیسے فلسطینی بچوں ، نوجوان، لڑکے لڑکیوں، خواتین اور بوڑھوں کا خون بہاتے رہو گے؟ بہرحال ہم بات کررہے تھے ان دو تصاویر کی جنہوں نے دیکھنے والوں کے دلوں کو دہلاکر رکھ دیا ہے۔ پہلی تصویر منذر نامی ایک شامی باشندہ کی ہے جو اپنے 5 سالہ بیٹے مصطفی کو فرط ِ مسرت سے ہوا میں اُچھال رہا ہے۔ باپ کی جانب سے ہوا میں اُچھالنے اور پھر اپنے ہاتھوں میں تھام لینے سے مصطفی بہت خوش ہے۔ اس معصوم کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ باپ بھی اپنے بیٹے کی خوشی پر مسرت سے سرشار دکھائی دے رہا ہے۔ وہ بھی اپنی دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے مسکرا رہا ہے۔ اس تصویر کی خاص بات ، منذر اور ان کے فرزند دلبند نور نظر کی مسکراہٹ یا خوشی سے سرشار چہرے نہیں بلکہ دونوں کا معذور ہونا ہے۔ منذر دراصل شامی شہر ادلیب کے ایک بازار میں کئے گئے بم دھماکہ کی زد میں آکر اپنے دائیں پاؤں سے محروم ہوگئے۔ ایک ایک بیساکھی ان کے پاؤں کا کام کرتی ہے۔ دوسری طرف مصطفی بھی معذور ہے۔ وہ ہاتھوں اور پیروں کے بغیر پیدا ہوا۔ ہم نے جب دل کو تڑپا دینے والی اس تصویر میں دکھائے جانے والے باپ بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ مصطفی کی والدہ بشارالاسد حکومت کی جانب سے مخالفین کیلئے استعمال کردہ کیمیائی ہتھیار Nerve Gas کی زد میں آگئی تھی اور اس گیس کے نتیجہ میں نہ صرف مصطفی کے ماں کا عصبی نظام متاثر ہوا بلکہ ان کے پیٹ میں پرورش پارہے مصطفی کے نمو پر بھی اثر پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادر شکم میں اس بچے کے اعضاء کا صحیح طور پر نمو نہ ہوسکا اور جب اس نے دنیا میں آنکھیں کھولی تو اس کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں نہیں تھے۔ مصطفی کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ TETRA-AMELA میں مبتلا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی والدہ زینب جب Nerve Gas کی زد میں آئی تب اعصابی نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے جو ادویات دی گئیں، ان ادویات سے بچے کا نمو متاثر ہوگیا۔ ہاتھوں اور پیروں سے محروم ہونے کے باوجود مصطفی اپنے ماں باپ کی خوشیوں، ان کی مسکراہٹوں و امیدوں اور خوابوں کا مرکز ہے۔ اس تصویر کے بارے میں آپ کو بتا دوں کہ منذر اور مصطفی فی الوقت ترکی کے ایک صوبہ ہیتے کے ریحانلی علاقہ کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔ وہ اپنے خیمے کے باہر کھیل رہے تھے کہ ترک فوٹو جرنلسٹ محمد اسلان نے اس خوبصورت لمحہ کو اپنے کیمرے میں قید کردیا۔ اس تصویر کو انہوں نے کٹھن زندگی کا نام دے کر سینا انٹرنیشنل فوٹو گرافی مقابلہ کیلئے بھیج دیا، اس مقابلہ میں تقریباً 163 ملکوں سے ہزاروں تصاویر روانہ کی گئی تھیں جن میں سے محمد اسلان کی اس تصویر کو نہ صرف اس سال کی بہترین تصویر قرار دیا گیا بلکہ سینا انٹرنیشنل فوٹوگرافی ایوارڈس میں انعام اول دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ انسانیت کی توجہ اپنی جانب کھینچنے والی اس متاثرکن تصویر کو سینا میں 23 اکتوبر سے جاری ویژول آرٹ ایگزیبیشن (تصویری نمائش) میں بطور خاص رکھا گیا ہے۔ یہ نمائش 5 ڈسمبر 2021ء تک جاری رہے گی۔ ننھے مصطفی کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اسے Electronic Prosthesis کی ضرورت ہوگی جو فی الوقت ترکی میں دستیاب نہیں ہے۔ یہ ایسے مصنوعی ہاتھ اور پیر ہوتے ہیں جو Electronic Power سے کام کرتے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر جس میں دونوں باپ بیٹا اپنی شدید معذوری کے باوجود چہروں پر ناقابل بیان مسکراہٹ لئے ہوئے ہیں راقم الحروف کو شیرخدا حضرت مولاعلیؓ کا وہ قول یاد آگیا جس میں آپؓ نے فرمایا: اگر تم اس وقت مسکراتے ہو جب تم پوری طرح ٹوٹ چکے ہو تو یقین جانو دنیا میں تمہیں کوئی بھی نہیں توڑ سکتا۔ کاش! دنیا اس تصویر میں پائے جانے والی پیار و محبت، عزت و چاہت، فکر و نظر، رنج و الم کا احساس کرتی تو کتنا بہتر ہوتا۔ یہ تصویر دراصل انسانیت اور اس کے جذبات و احساسات کی آزمائش ہے، کیونکہ انسان وہی ہوتا ہے جس میں احساس اور جذبہ پایا جاتا ہے، ورنہ اس دنیا کو زندہ نعشوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ واضح رہے کہ ملک شام میں 2011ء میں بے چینی و انتشار کا آغاز ہوا جس نے تباہی و بربادی کی شکل اختیار کرلی۔ اس جنگ میں اب تک جہاں بے شمار شامی شہر زمین دوز ہوگئے۔ حکومت اور دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں تقریباً شام ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا اور ان ملبوں میں کئی دردناک داستانیں بھی دفن ہوگئیں اور انسانیت و انسانی حقوق کا درس دینے والی عالمی طاقتیں اپنے بے حسی اور مفاد پرستی کے باعث انسانیت دشمن ثابت ہوئیں۔ اب ہم دوسری تصویر کی جانب چلتے ہیں جس میں ایک قبر پر برقعہ پوش خاتون کو دکھایا گیا ہے جو قبر سے اس قدر مضبوطی سے لپٹی ہوئی ہے جیسے کافی عرصہ بعد اسے اپنا کھویا ہوا بیٹا مل گیا ہو اور وہ اسے کسی بھی حال میں خود سے دور کرنا نہیں چاہتی۔ کچھ درندہ صفت فوجی اسے قبر سے ہٹانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ یہ تصویر کوئی پاگل یا جنونی عورت کی نہیں بلکہ اس مظلوم فلسطینی ماں کی ہے جس کا جواں سال بیٹا اسی قبر میں مدفون ہے، جسے وہ اپنے نور نظر کی طرح پوری قوت سے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ دراصل اسرائیل مسجد اقصیٰ کے مشرقی دیواروں سے متصل قدیم قبرستان الیوسفی کو صف ہستی سے مٹاکر وہاں پارک تعمیر کرنے کا خواہاں ہے اور اسی لئے اس قبرستان پر اس نے بلڈوزر چلا دیئے ہیں لیکن ام اعلیٰ نامی فلسطینی خاتون کو جب پتہ چلا کہ ظالم اسرائیلی فورسیس الیوسفی قبرستان کو زمین کے برابر کررہے ہیں، وہ قبرستان پہنچ گئی اور اپنے بیٹے کی قبر سے چمٹ کر اسے مسمار کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ وہ چیختی چلاتی رہی، روتی رہی، زار و قطار آنسو بہاتی رہی لیکن ہر روز درندگی کے نئے ریکارڈس بنانے والے اسرائیل اور اس کی فورسیس نے ایک ماں کے آنسو کو اُسی طرح خاک میں ملا دیا جس طرح سارے قبرستان کو خاک میں ملایا۔ ایک طرح سے اسرائیلی فورسیس نے ام اعلیٰ کے بیٹے اور دیگر کی قبروں کو ایک چمن سے نہیں اجاڑا بلکہ فلسطینیوں کے خوابوں کے چمن کو اجاڑا ہے۔ افسوس کسی مسلم حکومت اور حکمراں نے اس روتی بلکتی ماں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ عالمی برادری ہمیشہ کی طرح قاتلوں، ظالموں اور درندوں کے ساتھ دکھائی دی اور اپنی خاموشی کے ذریعہ ظالموں کی مدد کرتی رہی۔ ام اعلیٰ نے بے حس عالمی برادری اور امت مسلمہ کو یہ بتادیا کہ ایک ماں کو اپنے بیٹے کو جس طرح گود میں لئے اس سے محبت کرنے سے سکون قلب حاصل ہوتا ہے، اسی طرح وہ زمین کی گود میں آرام کرنے والے بیٹے سے بھی ویسے ہی محبت کرتی ہے۔ موت بھی ماں اور بیٹے کی محبت کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی۔ ام اعلیٰ نے اسرائیل کی سابق وزیراعظم گولڈا میئرکے اس بیان کو اسرائیل اور ان کے ہمدردوں کے منہ پر دے مارا جس میں اس نے کہا تھا کہ امن اس وقت آئے گا جب عرب ہم سے جو نفرت کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اپنے بچوں سے پیار کرنے لگیں۔ شاید گولڈا میئر کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کروانا دراصل اپنے بچوں سے محبت کی معراج ہے۔ کاش! عالمی برادری کو اسرائیل کی درندگی اور فلسطینیوں کی بے بسی کی تصاویر پر کچھ شرم آتی۔
[email protected]