کابل میں حکام نے ٹکنالوجی کو قبول کرلیا۔ دیگر ملکوں کو طالبان سے مزید اصلاحات مطلوب
کابل : گزشتہ سال ماہ گست میں ہی طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے اب تک کئی اصلاحات معرض التوا میں ہیں اور جس میں طالبان کے اعلی رہنماؤں میں اصلاحات سے متعلق اختلافات کی خبریں آنے لگی ہیں کہ ان کے رہنما کتنی اصلاحات کو برداشت کر سکتے ہیں۔میڈیا میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنے پہلے دور حکومت میں حقوق اور آزادیوں کو بری طرح سلب کرنے کے لیے بدنام طالبان نے اس بار مختلف طریقے سے حکومت کرنے کا عزم کیا، کم از کم بظاہر وہ کچھ معاملات میں تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔کابل میں حکام نے ٹیکنالوجی کو قبول کر لیا ہے جبکہ کرکٹ میچ عوام سے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہے ہیں، طالبان حکومت کے پہلے دور میں ٹیلی ویژن پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اب افغان عوام کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے ۔ لڑکیوں کو پرائمری اسکول میں جانے کی اجازت ہے اور خواتین صحافی سرکاری ملازمین کے انٹرویوز کر رہی ہیں جبکہ نوے کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور اقتدار کے دوران یہ سب ناقابل تصور تھا۔تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل اس گروپ کے سخت گیر کارکن کسی بھی اہم اور ایسی نظریاتی تبدیلی کے خلاف ہیں جسے مغرب میں ان کے دشمنوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے افغانستان کے تجزیہ کار ابراہیم بہیس نے کہا کہ آپ کے پاس طالبان کا ایک کیمپ ہے جو اسے اصلاحات کے طور پر دیکھ رہا ہے جبکہ ایک اور گروپ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ معمولی اصلاحات بھی بہت زیادہ ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ملک کو عالمی بینکنگ سسٹم سے باہر کر دیا ہے اور بیرون ملک اربوں کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں کیونکہ وہ طالبان سے اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کسی اہم پیش رفت کے بغیر افغان عوام ہی ملک میں جاری بڑے معاشی بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں ان میں سے کچھ خاندان اپنے اعضا یا اپنی نوزائیدہ بیٹیوں کو بیچنے تک پر مجبور ہو گئے ۔ جب تجزیہ کاروں سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان اصلاحات کے قابل بھی ہیں یا نہیں تو انہوں نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پالیسی تبدیلیاں ‘ٹوکن ازم’ سے کچھ زیادہ ہیں۔واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کے تھنک ٹینک میں افغان امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں ہم پالیسی میں ارتقا کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ ہم اب بھی ایک ایسی تنظیم کو دیکھ رہے ہیں جس نے انتہائی قدامت پسند کٹر خیالات سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ہے ۔یاد رہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کے زیادہ تر سکنڈری اسکول بند ہیں، بہت سی خواتین کو سرکاری کاموں سے زبردستی نکال دیا گیا ہے جب کہ بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے طالبان کی جانب سے سزا دیے جانے کے خوف کا شکار ہیں۔