عثمان شہید ایڈوکیٹ
وہ بے عیب ، وہ بے باک ، وہ پاک و صاف غریبوں سے ہمدردی کرنے والا ،سارے انسانوں کابلالحاظ مذہب و ملت ، ہمدرد و غمگسار ،طلبا و طالبات کی مدد کرنے والا ، لڑکیوں کی شادی کے لئے دست تعاون دراز کرنے والا ، طلبہ کو ہمیشہ علم کی دولت سمیٹنے کے لئے نصیحت کرنے والا ۔فسادات میں بے دریغ خرچ کرنے والا اچانک یوں دار مفارقت دے گا ہم نے سوچا بھی نہیں ؎
یوں تو سب ہی آتے ہیں دنیا میں مرنے کے لئے
موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس
ظہیر صاحب کی موت نے ہم کو زخم دیا جس کا مداوا مشکل لگتا ہے ۔ لگتا ہے جیسے ع
دل کو ہروقت تسلی کا گماں ہوتا ہے
درد ہوتا ہے مگر جانے کہاں ہوتا ہے
کل تک یعنی 7 ؍اگست 2023 سے قبل وہ ہمیشہ کی طرح ہنستے مسکراتے اپنی کرسی پربراجمان تھے مگر بن بادل ایسی بجلی آشیانے پر گر پڑی کہ تصور بھی نہیں تھا ۔ مشہور دلت لیڈر کمیونسٹ رہنما غدر کی میت میں شرکت کی غرض سے تیار ہوکر باہر نکلے ۔ الوال کے لئے رخت سفر باندھا کسے خبر تھی کہ یہ آخری سفر ہوگا ۔ اپنے دوست غدر سے یہی رطب اللساں تھے کہ دوست ہم زندگی بھر ساتھ رہے اب آخری وقت مجھے چھوڑکر کہاں جارہے ہو ۔ پھر کیا تھا آخری منزل کی طرف روانہ ہوگئے ۔
وہ مسافر حق تھا خدا آگاہ اور خود آگاہ تھا کوئی اس کے دربار سے خالی جھولی نہیں گیا ۔ گجرات کے فساد ہوں کہ دہلی کے جھگڑے یا کشمیر کا زلزلہ غریب عوام میں کپڑا بینک سے کپڑے تقسیم کرنے والا اب ہم میں نہیں رہا ۔ حیدرآباد میں سیلاب کے وقت بہت پیش پیش رہے ۔ وہ مسلمان اور دلت کے اتحاد کے پرزور حامی تھے اور علمبردار تھے ۔ ان کے دربار میں ہمیشہ دلت طلبہ بیٹھے رہتے اور مستقبل کی صورت گری کرتے ۔ ان کا ایقان تھا کہ اگر مسلم دلت اتحاد ہوجائے تو فسادات رُک سکتے ہیں ۔
میرے اُن سے برادرانہ تعلقات تھے۔ برا ہو میری بیماری کا میں ان کا آخری دیدار نہ کرسکا ۔ ان کامسکراتا چہرا میری زندگی کے آخری لمحات تک میری یادداشت کے صفحہ پر جگمگاتا رہے گا ۔ وہ بیحد پرخلوص انسان تھے ۔ کبھی کسی کا برا نہ چاہا ۔ کبھی کسی کو برانہ کہا۔ ان کی جدائی سے نواب زاہد علی خاں صاحب کا دست بازو علیحدہ ہوگیا ۔ اللہ ان کو صبر جمیل عطا کرے ۔ ظہیر الدین علی خاں کی مغفرت کرے ۔ فجر کے وقت سیکڑوں غمخواروں نے بادیدۂ نم اپنے محبوب محسن کو سپرد لحد کیا ۔ نماز فجر میں ایسا مجموعہ حیدرآباد میں کبھی نہیں دیکھا گیا ۔ مسجد اپنی تنگ دامنی کی شکایت کررہی تھی ۔
ظہیر بھائی آپ کی مسکراہٹ ، آپ کے خلوص کی گرمی سے شبستان ہند معطر ہے اور صبح قیامت تک ہماری صلاحیت کو گرماتا رہے گا۔ وہ وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے بہت سنجیدہ تھے ۔ محمود پراچہ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کو حیدرآباد لانے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ جہاں وقف کی کسی جائیداد کے تحفظ کا مسئلہ آتا وہ عثمان الہاجری صاحب کے ساتھ راہ عمل متعین کرتے ۔ پولیس کو فون کرتے۔ عملی اقدام کرتے ۔ مقدمے دائرکراتے ۔
میں کس کس کو پرسہ دوں ۔ ہم اُن والدہ محترمہ کو جنہوں نے فخر خاندان ، فخر وطن اولاد کو جنم دیا ۔ اُن زوجۂ محترمہ کو جن کا سہاگ حیدرآباد کا سہاگ تھا ، اُن صاحب زادوں کو جن کا باپ ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کرتا تھا اور زاہد نواب کو جن کا بازو نہیں ملت کا سہارا ٹوٹ گیا ۔ غرض بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔ میں عامر نواب سے کیسے کہوں کہ تمہارے چچا کا سایہ ہمیشہ کے لئے چلاگیا ۔ سیاست اخبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ خدا حافظ ظہیر صاحب ۔ الوداع ۔