عامر علی خان ایم ایل سی چلو تو سارے زمانہ کو ساتھ لیکر چلو

   

پروفیسر شمیم علیم

مسلمانوں میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کیلئے صحیح رہنمائی کا فقدان ہے اور جو علمبردار ہیں ان کے وعدوں اور افعال میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ دوسرے مسلمان ٹکڑے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں وہ کبھی ایک پرچم کے نیچے جمع نہیں ہوسکتے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی بجائے ترقی کے وہ تنزل کی طرف گرتے جارہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے راہول گاندھی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی ترقی کیلئے نئے خون کی ضرورت ہے لہذا جگہ جگہ وہ نوجوانوں کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ حیدرآباد میں عہد نظام کے بعد سے آہستہ آہستہ مسلمانوں کا تنزل شروع ہوگیا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی جو اردو زبان کی تنہا یونیورسٹی تھی جس نے ہزاروں نوجوانوں کو اعلی عہدوں پر پہنچادیا تھا اس کی جڑوں کو کھوکھلی کردیا گیا ۔ آہستہ آہستہ تمام اعلی عہدے مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہے ۔ تلنگانہ بنے کے بعد لوگوں کو اُمید تھی کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائیگا لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد تصویر کا رخ بدلنے لگا ۔ حکومت کو ایک نوجوان کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس میں جوش و خروش ہو ۔ جس میں قوم کا درد ہو ، جس میں مرہم لگانے کی صلاحیت ہو اور جس کا دامن داغدار نہ ہو اور ان کی نظر عامر علی خان پر پڑی ۔ عامر علی خان ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی دیانتداری ، سادگی اور خدمت خلق پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا میں بذات خود ان کو تین پشتوں سے جانتی ہو۔
میں نے مرحوم عابد علی خان صاحب کے ساتھ ویژن آف عثمانیہ بنتے ہوئے کام کیا ۔ ان کی سادگی کو دیکھ کر بے ساختہ یہ مصرعہ یاد آجاتا ’’ اس سادگی پہ آپ کی کون نہ مرجائے ‘‘ مرحوم عابد علی خان صاحب اور مرحوم جگر صاحب نے سیاست کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا وہ صرف ایک اخبار نہیں رہا بلکہ مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بن گیا ۔
زاہد علی خان صاحب نے جو مجھے اپنی بہن مانتے ہیں نہایت خاموشی سے مسلمانوں کی ترقی کیلئے کتنے ہی پروگراموں کو عملی جامعہ پہنایا ۔ انہوں نے تعلیم اور بے روزگاری جیسے مسلوں پر توجہ مرکوز کروائی اور مسلمانوں کو شادی بیاہ میں سیدھے سادھے راستہ پر چلنے کی ترغیب دی ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے اپنی ناسازی طبعیت کی وجہ سے انہوں نے تمام کاموں کا بوجھ عامر علی خان کے کاندھوں پر ڈال دیا ۔ جنہوں نے دن رات ایک کر کے انہیں عملی جامہ پہنایا ۔
عامر علی خان کے سامنے کینوس تو بہت بڑا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کے اندر انہیں نے کتنی آزادی اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملتی ہے ان سے درخواست ہے کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں بلکہ آہستہ آہستہ ثابت قدمی سے منزل کی طرف بڑھیں ۔ راہول گاندھی اور چیف منسٹر ریونت ریڈی قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں پر بھروسہ کیا اور صحیح نوجواں کا انتخاب کیا ۔ ہماری نیک خواہشات عامر علی خان کے ساتھ ہیں۔