عام آدمی پارٹی بنی قومی پارٹی

   

شوبھا براتا بھٹاچاریہ
الیکشن کمیشن نے ملک کی کئی اہم سیاسی جماعتوں کو حاصل قومی پارٹی کا درجہ ختم کردیا ہے جبکہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کو قومی پارٹی (قومی سیاسی جماعت) کا درجہ عطا کیا۔ یہ عام آدمی پارٹی کی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس نے اپنے قیام کے پہلے دس برسوں میں ہی قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہیکہ عاپ دہلی اور پنجاب میں برسر اقتدار ہے جبکہ 2022 گجرات اسمبلی انتخابات میں اروند کجریوال اس قدر بلند بانگ دعوے کررہے تھے جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ گجرات میں بھی عام آدمی پارٹی کی حکومت ہوگی لیکن اسے صرف 5 حلقوں میں کامیابی ملی اور کانگریس کو دوسرا جبکہ عام آدمی پارٹی کو تیسرا مقام حاصل ہوا۔ عام آدمی پارٹی کو 12.97 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو اسے درکار 6 فیصد ووٹوں سے دگنا ہیں۔ اسے گوا میں 6.67 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ اس نے دہلی اور پنجاب میں اقتدار حاصل کیا۔ اس طرح وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی پارٹی کا درجہ پانے کی مستحق ہوئی۔ واضح رہے کہ عاپ کا قیام دس سال پہلے عمل میں آیا اور اس نے قومی درجہ حاصل کرنے کے معاملہ میں 1925 کو قائم کی گئی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اس کے مغربی بنگال میں بھی ریاستی پارٹی کا درجہ منسوخ کردیا گیا اوڈیشہ میں بھی سی پی آئی ریاستی درجہ کی بھی پارٹی باقی نہیں رہی جبکہ دیگر تین ریاستوں میں اسے ہنوز ریاستی پارٹی کا درجہ حاصل ہے۔ اگرچہ سی پی آئی کا درجہ گھٹا دیا گیا لیکن سی پی آئی ملک کی واحد پارٹی ہے جو 1952 سے مسلسل انتخابات میں حصہ لیتی آرہی ہے اور خوبی یہ ہیکہ وہ ایک ہی انتخابی نشان پر انتخابات میں مقابلہ کررہی ہے۔ اس کا انتخابی نشان بھی تمام سیاسی جماعتوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ جبکہ 1980 سے بھی بی جے پی کا انتخابی نشان کنول کا پھول ہے اس کے برعکس دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات میں کسی نہ کسی وجہ سے تبدیلیاں آئیں۔ کبھی پارٹی میں پھوٹ کی وجہ سے یا پھر پارٹی کے کئی گروپوں میں بٹ جانے کے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات تبدیل کئے گئے۔
اگرچہ عام آدمی پارٹی کو الیکشن کمیشن نے قومی پارٹی کا درجہ دیا ہے لیکن فی الوقت لوک سبھا میں اس کی نمائندگی نہیں ہے۔ ہاں راجیہ سبھا میں اس کے دو ارکان ہیں اس کی اہم وجہ دہلی اور پنجاب میں اس کی شاندار کامیابی رہی۔ ان دونوں ریاستوں میں عاپ نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ آپ کو بتادیں کہ 13 مئی کو جالندھر حلقہ کا انتخاب ہونے والا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں مارچ 2022 سے عاپ کی حکومت ہے لیکن اب تک اسے حلقہ جالندھر کے لئے کوئی موزوں امیدوار نہیں مل پایا۔ اس نے سشیل رنکو کو اپنا امیدوار بنایا ہے جنہوں نے عاپ امیدوار بنائے جانے سے ایک دن قبل ہی کانگریس سے استعفی دے دیا تھا۔ حالندھر سے پارلیمنٹ میں کانگریس کے سنتوک سنگھ چودھری نمائندگی کیا کرتے تھے ان کے دیہانت کے نتیجے میں یہ نشست خالی ہوئی ہے۔ جنوری میں راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کے ایک دن بعد مسٹر چودھری کا دیہانت ہوا۔ کانگریس نے اب اس حلقہ سے ان کی بیوہ کرنجیت کور کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ دوسری طرف این سی پی اور ترنمول کانگریس سے بھی الیکشن کمیشن نے قومی پارٹیاں ہونے کا درجہ چھین لیا ہے۔ این سی پی اور ترنمول کانگریس، کانگریس سے نکلی ہوئی جماعتیں ہیں جن کا بالترتیب 1999 اور 1998 میں قیام عمل میں آیا۔ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں ممتا بنرجی اور شردپوار کو اکثر عہدہ وزارت عظمی کے امیدواروں کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی طرح ترنمول کانگریس نے بھی مغربی بنگال کے باہر اپنی قسمت آممائی کی لیکن ایک قومی درجہ کی پارٹی ہونے کے لئے درکار 6 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکی جس کے نتیجہ میں اب وہ مغربی بنگال اور تریپورہ میں ریاستی درجہ کی پارٹی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ناگالینڈ میں نشستیں جیتنے کے باوجود اسے وہاں اور مہاراشٹرا میں ریاستی درجہ کی پارٹی قرار دیا گیا ہے۔ اس نے گوا، منی پور اور میگھالیہ میں خراب مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے برعکس نیشنل پیپلز پارٹی کو جس کی قیادت چیف منسٹر میگھالیہ کونارڈ سنگما کرتے ہیں نیشنل پارٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ کونارڈ سنگما پی اے سنگما کے فرزند ہیں جنہوں نے شردپوار اور طارق انور کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کے خلاف بغاوت کی اور این سی پی قائم کی تھی۔ نیشنل پیپلز پارٹی کو بی جے پی، کانگریس، سی پی آئی ایم اور بی ایس پی کے ساتھ قومی پارٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے قومی پارٹی کا درجہ منسوخ کرنے کا عمل الیکشن کمیشن نے 2014 میں نریندر مودی کی شاندار کامیابی کے بعد شروع کیا اور پارٹیوں کی کارکردگی یا انتخابی مظاہرہ کو اس کی بنیاد بنایا گیا۔ اس ضمن میں این سی پی، ترنمول کانگریس سی پی آئی اور بی ایس پی کو بھی نوٹس وجہ نمائی جاری کی گئی تھی۔ ان جماعتوں کی نمائندگی پر الیکشن کمیشن نے اپنے نقطہ نظر میں نرمی لائی اور رہنمایانہ قواعد میں ترمیمات کی اور اس کے لئے مدت ایک الیکشن سے بڑھا کر دو انتخابات کردی گئی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ملک بھر میں بی ایس پی نے جو ووٹ حاصل ۔ اس کے تناسب کو دیکھتے ہوئے مایاوتی کی پارٹی کو مذکورہ پارٹیوں کی فہرست سے نکالدیا گیا لیکن این سی پی اور ترنمول کانگریس کا مظاہرہ خراب رہا۔ بی آر ایس کو آندھرا پردیش میں ریاستی پارٹی کے درجہ سے محروم کردیا گیا۔ اب وہ صرف ریاست تلنگانہ میں ریاستی سطح کی پارٹی رہ گئی ہے۔ کے سی آر نے ٹی آر ایس کو بی آر ایس سے تبدیل کرنے کے بعد غیر بی جے پی غیر کانگریسی اتحاد کے لئے مہم شروع کی ہے تاکہ 2024 کے عام انتخابات متحدہ طور پر لڑے جاسکیں۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے پوتے جینت چودھری کی زیر قیادت راشٹریہ لوگ دل (RLD) نے بھی اترپردیش کی ریاستی پارٹی ہونے کا اعزاز کھو دیا ہے۔ واضح رہے کہ چرن سنگھ کی پارٹی بھارتیہ کرانتی دل نے 1970 میں اترپردیش میں حکومت کی اور پھر 1974 میں سات سیاسی جماعتوں کے انضمام کے بعد وہ بھارتیہ لوک دل ہوگئی۔ ان سات جماعتوں میں بی کے ڈی، سوتنترا پارٹی، اتکل کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی شامل تھیں۔ ان اتحاد کا مقصد اندرا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس کا مقابلہ تھا اور اس پارٹی نے جبکہ اہلدار انتخابی نشان تھا اور اس اتحاد نے پہلی مرتبہ کانگریس کو 1977 میں اقتدار سے بے دخل کیا۔