عام شہری جرم کرے تو پولیس کیس اور پولیس اگر ظلم کرے تو… ؟

   

محمد اسد علی (ایڈوکیٹ )
جب کوئی شخص سرکاری یا عوامی قانون سے بڑھ کر جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ دراصل یہ ایک سزا ہے جو اس کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے۔ جرم کا تعلق ہمارے اپنے فیصلے سے ہوتا ہے۔ جب ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں یا جسے روبہ عمل لانے میں ہم اندرونی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ جرم اس وقت شرم میں تبدیل ہوجاتا ہے جب ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے عمل کی وجہ سے لوگ ہمارے بارے میں غلط رائے محسوس کرنے لگے ہیں تب ہم شرمسار ہوجاتے ہیں جب ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اقدام سے مرتب ہونے والے اثرات نے ایک مخصوص حد سے متجاوز ہوکر سماجی ماحول میں خلل اندازی کی ہے۔
جب کوئی شخص جرم کرتا ہے، اس کو ملزم کہتے ہیں اور جب اس پر جرم ثابت ہوجائے تو اس کو مجرم کہتے ہیں۔ اگر مدعی (Trial) میں اپنا مقدمہ ثابت کرتا ہے تو عدالت ملزم کو سزا دے سکتی ہے۔ اگر مدعی اپنا مقدمہ عدالت میں ثابت نہ کرسکے تو عدالت ملزم کو بری کرسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی یا جان لیوا حملہ کی سازش کرے یا مارپیٹ کے ذریعہ شدید زخمی کردے تو آپ سب سے پہلے پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر پولیس کی مدد سے گورنمنٹ ہاسپٹل یا کسی قریبی ہاسپٹل میں علاج کرواتے ہیں ، علاج کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر (MLC Certificate) دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک تحریری درخواست جس میں تمام تفصیلات جیسے آپ کا نام، گھر کا پتہ، حملہ آوروں کے نام جو منظم سازش میں ملوث تھے، جھگڑے کا مقام، وقت اور تاریخ وغیرہ لکھنا چاہئے۔ اگر کیس سنگین نوعیت کا ہو تو پولیس فوری مقام واردات پر پہنچ کر بعد تحقیقات ملزم کے خلاف F.I.Rجاری کرسکتے ہیں اور جرم سنگین نوعیت کا نہ ہو تو پولیس تحقیقات کیلئے وقت لے سکتی ہے۔ اگر پولیس آپ کی تحریری شکایت لینے سے انکار کرے تو آپ کسی بھی پوسٹ آفس سے رجسٹری پوسٹ A/D بھیج سکتے ہیں اور پولیس کی جانب سے تحریری شکایت پر لاپرواہی یا تاخیر کی صورت میں (SHO) کے خلاف تحریری شکایت (ACP)(DCP) اور سٹی کمشنر پولیس سے کرسکتے ہیں اور کارروائی نہیں ہونے کی صورت میں عدالت سے رجوع ہوکر Private Complaint کا مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اگر کوئی شخص پولیس سے شکایت کیلئے رجوع ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی حیثیت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کا اثرورسوخ نہ ہو تو اس کی شکایت سننے کے بعد کارروائی میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور بعض پولیس والوں کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ عام طور پر محکمہ پولیس کے بارے میں عوام کی رائے اچھی نہیں ہے۔ عام شہری کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں نیچے سے اوپر تک پیسے کمانے کی حرص و ہوس اور جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ محکمہ پولیس میں تعصب بھی ایک تشویشناک بات ہے حالانکہ ہندوستانی دستور کے مطابق ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں لیکن بعض عہدیدار مذہبی رُخ کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقی شکایت کنندہ کا حوصلہ پست کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ گال گلوج کرتے ہیں۔ اگر فریق مخالف دولت مند یا اثرورسوخ رکھتا ہو تو اس صورت میں شکایت کنندہ کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور پیسوں کی لالچ میں بعض عہدیدار اپنے دستوری حلف کو فراموش کردیتے ہیں۔ جبکہ وہ دیانت داری اور غیرجانبداری سے فرض منصبی کی ادائیگی کی قسم کھاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض پولیس ملازمین ہوٹلس یا ٹفن سنٹر میں کھانے کے بعد بل ادا نہیں کرتے جس سے ہوٹل یا ٹفن سنٹر کے مالک کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ کیا یہ پولیس کا ظلم نہیں ہے؟ اگر کوئی شخص کھانے کے بعد بل ادا نہ کرے تو ہوٹل کے مالک اس شخص پر برہم ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ گالی گلوج کرتے ہیں لیکن بعض پولیس ملازمین کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بل ادا نہ کرے تو ہوٹل کے مالک کی خاموشی پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ کیا پولیس ملازمین کیلئے قانون نہیں ہے؟ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ عوام کا کہنا ہے کہ پولیس کی نہ دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی ، یہ کہہ کر عوام ان کا ظلم سہتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایسے پولیس ملازمین پر نظر رکھنا چاہئے تاکہ کسی پر بھی ظلم نہ ہو۔ محکمہ پولیس میں بہت سے پولیس ملازمین اور اعلیٰ عہدیدار انتہائی دیانت دار ہیں اور اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی رشوت یا لالچ سے متاثر نہیں ہوتے ہیں اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ حکومت ایسے پولیس ملازمین کو ایوارڈس دے تاکہ دوسرے پولیس ملازمین کو ان کی تقلید کی ترغیب ملے۔ علاوہ ازیں تلنگانہ میں بہت سے پڑھے لکھے نوجوان ایسے ہیں جو اُردواور انگریزی میں مہارت رکھتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو تلنگانہ حکومت کی جانب سے پولیس اسٹیشن میں ایک اُردو آفیسر کا تقرر کرنا چاہئے کیونکہ بہت سے ایسے شکایت کنندہ اور اُردو زبان جاننے والے لوگ ہیں جنہیں انگریزی زبان میں درخواست لکھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ایسے درخواست گذاروں کو ایڈوکیٹ کے پاس اپنی فریاد لے کر جانا پڑتا ہے اور انہیں فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور بہت سے اُردو داں کا کہنا ہے کہ بعض ایڈوکیٹ کی (Drafting) پر وہ مطمئن نہیں ہوتے اور وہ ایک قسم کی بے چینی محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہمیں اُردو میں درخواست لکھنے کا موقع دیا جائے تو ہم اپنے دل کی بات یعنی شکایت پولیس اسٹیشن اور عدالت تک پہونچاسکتے ہیں۔ تلنگانہ کے تمام پولیس اسٹیشنوں میں انگریزی زبان اور تلگو زبان میں تحریری شکایت دینے کی اجازت ہے تو پھر اردو زبان کے ساتھ ناانصافی کیوں؟ اس سلسلے میں تلنگانہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اُردو زبان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اور اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دیں۔ عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی کو دور کرتے ہوئے تلنگانہ کے تمام پولیس اسٹیشنس میں ایک اُردو آفیسر کا تقرر عمل میں لائے اور ساتھ ہی ساتھ اُردو سیل قائم کرنے کے احکامات بھی جاری کرے جس سے اُردو داں طبقہ کو اُردو میں درخواست لکھنے کی سہولت ہوگی اور تلنگانہ کے عوام کو اس سے فائدہ حاصل ہوگا اور اس اقدام سے تلنگانہ حکومت ، ہندوستان میں ایک مثال قائم کرتے ہوئے خاص طور پر تلنگانہ کے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔